|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے اورآبادی کی اکثریت کیلئے تعلیم کا حصول دن بہ دن مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایمرسن کالج جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے ایک ایسا کالج ہے جہاں پڑھنے والے تمام تر طلبہ وہ ہیں جو مہنگائی کے اس دور میں یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مگر اب ریاست جنوبی پنجاب کے محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کا یہ دروازہ بھی بند کرنے کے در پے ہے۔ ایمرسن کالج کی اپگریڈیشن کی جارہی ہے جس کے بعد تعلیم مزید مہنگی ہو جائے گی اور اس خطے کی بہت بڑی آبادی کے لئے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
10فروری کو پنجاب حکومت کی جانب سے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا اور مزید اس سلسلے میں اختیارات کی منتقلی کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔ یونیورسٹی بنانے کے فیصلے کے خلاف پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن نے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے چونکہ یونیورسٹی بننے کے بعد اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کے تبادلے ہوں گے اور ایک اچھی خاصی تعداد کو نوکری سے نکالا جائے گا۔
کالج کو یونیورسٹی بنانا یہاں کی محنت کش عوام پر بلاشبہ ایک حملہ ہے۔ یونیورسٹی بنانے کے نتیجے میں فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا اور طلبہ کی وسیع تعداد کیلئے تعلیم کے دروازے بند ہوں گے۔ اس لئے اس کے خلاف طلبہ کی بڑی تعداد بھی احتجاجوں میں شامل ہے، کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے اور گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل کالج گیٹ پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔
اپگریڈیشن: ترقی یا سراب؟
گورنمنٹ ایمرسن کالج کے قیام کے سو سال مکمل ہونے پر پچھلے سال اپگریڈ کرنے کی تیاری شروع کی گئی تھی جس کے تحت کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جانا تھا۔ عثمان بزدار نے سو سالہ تقریب میں اس کا علان کیا تھا جس کے خلاف ایمرسن کالج کے طلبہ نے ایک شاندار تحریک چلائی لیکن کرونا کی آڑ میں کالج کی بندش کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں اس کو ایجنڈا میں رکھا گیا اور بل منظور کیا گیا۔ یہ بات واضح ہے کہ اس وقت کالج میں تقریباً بارہ ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور پنجاب کے دیگر کالجوں کی طرح ایمرسن کالج بھی ڈائریکٹوریٹ کالجز کے تحت کام کرتا ہے جس میں طلبہ کی فیسوں سمیت کالج فیکلٹی کے اخراجات حکومتی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ طلبہ سے ایڈمیشن، ٹیوشن و لائبریری و دیگر خدمات کی مد میں قلیل فیس لی جاتی ہے جو کہ تین سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
کالج کی اپگریڈیشن کے بعد کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا اور ڈائریکٹوریٹ کالجز کے ساتھ الحاق ختم کر دیا جائے گا اور ایمرسن یونیورسٹی باقاعدہ طور پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہی میں کام کرے گی اور وائس چانسلر اور سنڈیکیٹ ایمرسن یونیورسٹی کو چلائیں گے۔ یہ بات واضح رہے کہ پچھلے چند سالوں سے ایچ ای سی نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے بجٹ میں بہت بڑے پیمانے پر کمی کی ہے جس کی بنیادی وجہ تعلیم کے سالانہ بجٹ میں مسلسل کمی اور آئی ایم ایف کی پالیسی ہے (جس کے تحت سرکاری اخراجات میں کمی اور غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ کرنا شامل ہے)۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایچ ای سی جامعات کو خودمختار کر رہا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ یونیورسٹی کو اب ریاست کوئی پیسے نہیں دے گی اور تمام اخراجات طلبہ کی فیسوں سے پورے ہوں گے۔
ایمرسن کالج کی اپگریڈیشن کے فوری بعد نہ صرف نئے آنے والے طلبہ بلکہ پہلے سے موجود طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جائے گا کیونکہ یونیورسٹی کو اپنا بجٹ خود بنانا ہوگا اور تمام پیسے طلبہ کی جیبوں سے نکالنے ہوں گے۔ جس کا سادہ سا مطلب ہے کہ موجودہ کالج میں جو سٹوڈنٹس تین سے پانچ ہزار روپے فیس دے کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ یونیورسٹی بن جانے کے بعد بیس سے تیس ہزار میں وہی تعلیم حاصل کریں گے اور اس میں آگے چل کر مزید اضافہ کیا جائے گا۔ کالج کی ترقی کا یہ ڈھونگ غریب طلبہ پر معاشی حملہ ہے جو بمشکل ان کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں یا جنہوں نے آگے اس کالج میں داخلہ لینا ہے۔
طالبعلم ساتھیو ہمیں اس طلبہ دشمن حملے کے خلاف منظم ہونا ہوگا، اس میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش باقی نہیں کہ یونیورسٹی کا قیام ہمارے لیے تعلیم کے دروازے بند کرنے جارہا ہے، اب طلبہ کو ہر کلاس کے نمائندوں پر مشتمل اپنی کمیٹیاں بنانی ہوں گی جو ہر قسم کی طلبہ دشمن قیادتوں اور تنظیموں سے آزاد ہوں اور اسی کے گرد عام طلبہ کو جوڑتے ہوئے ایک پرزور تحریک چلانا ہوگی صرف اسی طریقے سے ہم اپنے تعلیم کے حق کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اور طلبہ کی اس لڑائی میں پروگریسو یوتھ الائنس آ خری دم تک طلبہ کے ساتھ کھڑا ہے۔