|تحریر: مشعل وائیں|
ارسطو کے مطابق انسان نقل کر کے سیکھتا ہے اور اس عمل سے خوشی محسوس کرتا ہے۔یہ عمل پیدائش سے لے کر آخری دم تک جاری رہتا ہے۔ اسی دوران وہ فرسودہ رسم و رواج اور انسان دشمن تجربات کو رد کرکے انسان دوست ورثہ میں اضافہ کرتا ہے اور انسانیت کے لیے مفید ایجادات کرتا ہے۔یہ سیکھنے کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔
رسمی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے مڈل کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں تاکہ جلد از جلد تعلیم مکمل کرنے بعد وہ ان کو واپس کما کر دے سکیں اور ان چکروں میں وہ لاکھوں روپے اپنے بچوں کی فیسوں پر لگا دیتے ہیں۔
انٹر کا امتحان طلبہ کی زندگی کا اہم ترین امتحان ہے کیونکہ اس بنیاد پر ان کے شعبہ تعلیم کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔ زیادہ تر طلبہ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے چکروں میں ہوتے ہیں جس کی ایک اہم وجہ گھر والوں کا دباؤ ہوتا ہے۔ اس لئے بیشتر طلبہ بار بار ایف ایس سی کا امتحان دیتے ہیں اور داخلہ ٹیسٹوں کی تیاری کے لیے مہنگی فیسیں ادا کرنے کے ساتھ داخلہ ٹیسٹوں کی فیسیں ادا کرتے ہوئے حکومت کے خزانوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ طلبہ بھی جن کا داخلہ کسی اور پروگرام میں ہو گیا ہوتا ہے وہ بھی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے چکروں میں بار بار داخلہ امتحان دیتے رہتے ہیں۔ اسی طرح میرٹ سسٹم کے غیر یقینی اتار چڑھاؤ کے پیشِ نظر طلبہ کی اکثریت تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے مختلف پروگرامز میں داخلے کے لیے درخواستیں جمع کراتے ہیں اور ان درخواستوں کی بھاری فیسیں بھی بھرتے ہیں۔
لیکن اس سال صورتحال کچھ مختلف ہے۔ وباء کے باعث امتحانات منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ طلبہ کا داخلہ فرسٹ ایئر کے نتائج کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ سن کر کچھ طلبہ تو خوشیاں منا رہے ہیں لیکن محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ جنہوں نے اپنے گریڈ بڑھا کر سرکاری اداروں میں میرٹ پر داخلہ لینا تھا اس فیصلے سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن طلبہ سے جو انٹر کے امتحانات کے لیے پیپر فنڈ لیا گیا تھا اس کا کیا بنے گا؟ اس بار طلبہ سے پیپر فنڈ بھی دگنا لیا گیا تھا تو کیا انہیں وہ روپے واپس کیے جائیں گے؟ اگر نہیں تو وہ روپے کہاں جائیں گے؟کیا وہ پیسے بھی ڈیم فنڈ اور کرونا فنڈ یا ریاستی قرضے اتارنے میں خرچ ہوں گے؟
امتحانات کی منسوخی نے لاکھوں لوگوں کا روزگار چھین لیا ہے۔ ایسے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان جن کو کوئی اور نوکری نصیب نہیں ہوتی تھی وہ بھی امتحانی سینٹر میں انویجی لیٹر اور پیپر چیکر کی صورت میں پیسے کما کر گزارہ کرتے تھے اور یہ تمام تنخواہ انہیں طلبہ سے حاصل کردہ فیس (پیپرفنڈ) سے ملتی تھی۔ تو کیا امتحانات کی منسوخی کی صورت میں ان کو تنخواہیں دی جائیں گی؟ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ان کاموں کے لیے سارا سٹاف ڈیلی ویجز پر رکھا جاتا ہے اور امتحان ہو جانے کے بعد انہیں فارغ کر دیا جاتا ہے۔
یونیورسٹیاں جلد نئے داخلوں کا اعلان کر دیں گی۔ امید ہے ہمیشہ کی طرح پراسپیکٹس کی فیسیں ویب سائٹ پر ہی جمع ہوں گی اور سیٹوں کی تعداد وغیرہ کے حوالے سے طلبہ کو کوئی تفصیل نہیں بتائی جائے گی۔ ہزاروں طلبہ چند سیٹوں کے لیے اپلائی کریں گے لیکن چند ایک میرٹ والوں کو سیٹ ملے گی اور باقی فارم کے نام پر ان کے فنڈز میں اضافہ کا باعث بنیں گے۔ میرٹ پر نہ آ سکنے والے محنت کشوں کے بچے اپنے گھر بار بیچ کر کسی پرائیوٹ ادارے میں داخلہ لیں یا پھر سبزی کا ٹھیلہ لگا کر اپنے گھر والوں کا پیٹ پالیں؟ اسی طرح لاک ڈاؤن کے دوران پہلے ہی یہی فیسیں 41 فیصد بڑھ گئی ہیں اور کئی یونیورسٹیوں نے سمیسٹر کے آغاز سے بھی پہلے فیسیں بٹورنا شروع کر دیا ہے۔
آن لائن کلاسز میں طلبہ کو کسی قسم کے وسائل مہیا نہیں کیے گئے ہیں اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ شدید مشکلات اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔ان کی ڈگریاں داؤ پر ہیں اور ان کی ایک نہیں سنی جا رہی۔ انڈیا کی طالب علم کی خودکشی جیسے کیسز میں اس کے سبب اضافہ نظر آئے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جلد ہی ذہنی مریضوں کی تعداد میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
کاروبار بند ہونے کے سبب لوگوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ جہاں بڑے بزنس ٹھپ ہوگئے وہاں محنت کشوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے پاس روٹی خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اور یونیورسٹیوں کے مطابق وقت پر سمیسٹر فیس نہ جمع کرانے پر ان کے بچوں کو ڈراپ کر دیا جائے گا۔ صرف مالدار لوگ تعلیم جاری رکھ سکیں گے یا عام عوام کو اپنا گردہ، جگر یا اپنی زندگیاں بیچ کر اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنا ہوگی۔
لاک ڈاؤن سے پہلے بھی تعلیمی اداروں کی حالت بہت خراب تھی۔ آج پاکستان کے کسی بھی بڑے تعلیمی ادارے کو دیکھ لیں تو استاد اور شاگرد کے مابین ایک سیلز مین اور گاہک کا رشتہ ہے جو مالکان کی طرف سے بچوں کو ڈگریاں فروخت کرنے کا کام کر رہا ہے۔ آج نام نہاد پروفیسرز طلبہ کو تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ڈگری یافتہ بنا رہے ہیں۔
آج تعلیم کے میدان میں قدم رکھیں تو یہاں بھی سرمایہ دار کا پیدا کردہ ”Division of Labour“ کا اصول نظر آتا ہے جو کہ کم سے کم وقت میں زیادہ منافع ہڑپنے کا اور انسان کے ہنر و مہارت کو ختم کرنے کا اصول ہے۔ یونیورسٹی میں ایک مضمون آپ کوتقریبا 5-6 اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کری کولم کوئی اور ڈیزائن کرتا ہے، کتابیں کوئی تجویز کرتا ہے، کتابیں لکھتا کوئی اور ہے، نوٹس کسی اور کی تخلیق اور امتحانی پرچہ کوئی اور ڈیزائن کرتا ہے۔ آخر میں پیپر چیک بھی کوئی اور کرتا ہے! حالانکہ یہ تمام کام ایک پروفیسر کا ہونا چاہیے۔
آج بھی کئی سال پرانا سلیبس اور کتابیں ایسے پڑھائی جا رہی ہیں جیسے دنیا جمود کا شکار ہے، وقت رک گیا ہے اور بہتری کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ استاد کو محض تعلیم کا دیوتا سمجھا جاتا ہے اور طلبہ اس کی پوجا میں مصروف ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ استاد ایک پانی سے بھرا جگ ہے اور طالب علم خالی گلاس ہیں۔ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ سارا علم طلبہ کے خالی دماغوں میں انڈیلے۔ ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ چونکہ ہر فرد ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اس لیے استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر طالب علم کو انفرادی طور پر سمجھ کر پڑھائے۔ یوں تعلیم کو ایک یک طرفہ عمل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ تعلیم یک طرفہ نہیں بلکہ ایک ”دو طرفہ عمل“ ہے۔ اس عمل میں نہ صرف طالب علم بلکہ استاد بھی انٹریکشن سے سیکھتے ہیں۔طلبہ صرف خالی دماغ نہیں ہوتے بلکہ بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو استاد بچوں سے سیکھتا ہے۔ آئی کنٹیکٹ اور جیسچرز کا بڑا کردار ہوتا ہے جس سے طلبہ اور استاد دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
اساتذہ کی مہارت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے اور وہ بس روزگار کے لیے پڑھا رہے ہیں۔ آن لائن کلاسز کی وجہ سے پروفیسرز کی تنخواہوں میں بھی بہت زیادہ کٹوتی کی جارہی ہے اور ٹریننگ کے بغیر لیکچر دینے پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں نے فیسوں میں تین گنا اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ یہ سب کیا ماجرہ ہے؟ فیسیں آخر کہاں اور کس کی جیبوں میں جاتی ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ تعلیم کا سارا نظام ایک منافع بخش دھندے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
جب تک یہ گلا سڑا معاشی نظام رہے گا تب تک یہ گلا سڑا تعلیمی نظام بھی موجود رہے گا۔ اس کی وجہ کوئی فرد نہیں بلکہ یہ نظام ہے جس نے تعلیم کی خوبصورت روایت کو ایک گندے دھندے میں تبدیل کر دیا ہے۔ استاد اور طالب علم کے رشتے کو اجاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ نظر دوڑائی جائے تو اس نظام نے صرف تعلیم نہیں بلکہ ہر شعبے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ تقدس و تکریم کے خوبصورت رشتے کو ختم کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ محبت جیسے خوبصورت انسانی جذبے کو بھی آکسی ٹاسن جیسے کیمیکل کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے اور آج مصنوعی کیمیکلز کے ذریعے محبت کے جذبات پیدا کرنے کے تحربات کیے جا رہے ہیں۔ اس عہد میں ہمیں ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی نظر آتی ہے لیکن ہمیں مایوس ہونے کی بجائے ایک نئی اور بہتر زندگی کی راہ تلاش کرنا ہوگی جو بلاشبہ سوشلزم کی راہ ہے! ہم اگر اکٹھے ہوجائیں تو اس دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی اور ہم با آسانی اس آدم خور نظام کو کچل سکتے ہیں۔ یہی عہد حاضر میں انسان کے مصائب سے نجات کی راہ ہے۔ جاڑے کا موسم سب اجاڑ تو گیا ہے لیکن بہار کی امید ابھی باقی ہے اور ہم ہی اس بہار کے سفیر ہیں۔