پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن: ماضی کا مزار!

|تحریر: ولی خان ناصر|

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی تہذیب کے مختلف ادوار میں انسانی سماج نے ایسی کئی تحریکوں کو جنم دیا جو سماجی بڑھوتری اور ترقی کا سبب بنیں۔ تحریکوں کے مقاصد اور عوامل ہوتے ہیں جس میں کسی بھی سماج کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ارتقائی عمل میں انسانوں کے اوزار بنانے کی صلاحیت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ غلام دارانہ اور جاگیردارانہ سماج میں انسانی ہاتھوں سے بننے والے اوزاروں اور تکنیک میں ترقی نے تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح سرمایہ داری میں صنعت کی ترقی کے ساتھ قومی تحریکوں نے جنم لیا جس نے قومی ریاست اور جدید منڈی کی معیشت تشکیل دی۔ اسی طرح بیسویں صدی میں ایسی تحریکوں نے اقوامِ عالم میں جنم لیا جن کا مقصد سرمائے کی جبر سے آزادی تھی۔ ان سماجی تحریکوں کا اصل مقصد سماج کو آگے لے کر جانا ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی سماجی و معاشی نظام اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کے بعد متروکیت کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ نظام انسانی سماج کو ترقی دینے میں ناکام ہو جاتاہے، تو اس کے خلاف نئی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ حقیقی سماجی تحریکوں کا محور سماج کو پسماندگی سے نکالنا، جدید خطوط پر استوار کرنا، لوگوں کو جبر اور زیادتی کیخلاف منظم کرنا، کسی بھی وقت میں عوام الناس کے آگے بڑھنے اور اپنے مقاصد پورے کرنے میں درست رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔

ترقی پسند تحریک، سماج اور سماجی حرکات کے تمام اور وسیع تر مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اور بروقت سماجی حرکات کے مطابق درست فیصلے کر کے آگے بڑھتی ہے۔ اور اپنی نظریاتی پختگی کو ہمیشہ آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنا طریقہ کار متعین کرتی ہے۔ جہاں جیسے ضرورت ہو ایسے طریقہ کار کے تحت جدوجہد کرتی ہے۔ اور اس جدوجہد میں نظریات کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ نظریات کسی بھی تنظیم کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ درست نظریات کے بغیر تحریک محض فرسودہ گروہ کی مانند ہوتی ہے اور کوئی بھی تنظیم نظریات کی بنیاد پر اپنے مقاصد کا تعین کرتی ہے۔ ایک ترقی پسند تنظیم اجتماعی مقاصد کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور اس تنظیم کے تمام ممبران، قیادت سے لیکر کیڈرز اور عام کارکن تک سب اپنے تمام ذاتی مقاصد اور خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر سماج کے اجتماعی مقاصد کے لیے لڑتے ہیں۔ تنظیموں کے جنم میں معروضی حالات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ایک فرد یا افراد سماج کی مجموعی کیفیت کو شعوری یا لاشعوری طور پر پرکھ کر مخصوص نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہو گا اور اسی بنیاد پر تحریکیں وجود میں آتی ہیں جو سماجی کیفیت سے اخذ ہوتی ہیں۔ اسی طرح افراد نے بحیثیت فرد مختلف ادوار میں سماجی کیفیت دیکھ کر درست تناظر پیش کیا، اور اپنے تناظر کے گرد عوام کومنظم کر کے تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔

بیسویں صدی میں جب دنیا دو بلاکس سوشلسٹ اور سرمایہ دار میں تقسیم ہوئی تو تیسری دنیا کی بہت سے اقوام نے سوشلسٹ بلاک سے متاثر ہو کر نئی تنظیموں کو جنم دیا جن کا واضح مقصد لوگوں اور اقوام کو سرمایہ داری اور قابض گروہوں کے جبر سے آزاد کرنا تھا۔ ہمارے خطے میں بھی انہی تحریکوں نے سر اْٹھایا تھا جن نے سماج کو پولیٹی سائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس خطے میں پشتونوں کی جدید تحریکوں میں غازی امان اللہ خان کا شاہی مشروطہ، خدائی خدمتگار تحریک اور ویش زلمیان کے تحریکوں نے جنم لیا۔ ویش زلمیان کی تحریک نے پشتو ادب میں انقلابی کردار ادا کیا۔ اسی طرح اس تحریک نے خلق پارٹی کو جنم دیا جس نے افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا اور پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ جبکہ دوسری طرف برصغیر میں خدائی خدمتگار تحریک نے پشتون خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی تحریک نے ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ کو جنم دیا۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب پوری دنیا سمیت برصغیر میں بھی عوامی تحریکیں اٹھ رہی تھی۔ 50ء اور60ء کی دہائی میں پاکستان کے اندر مختلف ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی بنیاد رکھی گئی جس میں این ایس ایف، پشتون ایس ایف، بی ایس او، ڈی ایس ایف شامل تھیں۔ ان کا مقصد اپنے لوگوں کو ریاستی جبر سے آزاد کروانا اور عالمی سامراج کیخلاف مظلوم طبقات اور اقوام کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنا تھا۔

پشتون ایس ایف کی بنیاد 1968ء میں اجمل خٹک، جو کہ پشتو زبان کے ایک انقلابی شاعر اور ایک انقلابی رہنماء تھے، نے خوشحال خان خٹک کی قبر پر رکھی۔ یہ تنظیم پشتون طلبہ میں ایک انقلابی تنظیم کی حیثیت سے متعارف ہوئی۔ اس تنظیم کا اصل ہدف پشتون قوم کو سیاسی شعور دینا، تعلیمی اداروں میں طلبہ مسائل کے حل کیلئے طلبہ کو منظم کرنا اور علمی ماحول پیدا کرنا تھا۔ سیاسی تربیت کے لئے سٹڈی سرکلز کا انعقاد اور اس کے ساتھ قومی اور طبقاتی جدوجہد میں پشتون طلبہ کے کردار کو اجاگر کرنا تھا۔ جیسا کہ پشتون ایس ایف کے منشور سے واضح ہے کہ ہم اپنی قوم اور مظلوم طبقات اور دنیا بھر کی تمام مظلوم اقوام اور محنت کشوں کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنے اور ان کے ساتھ مل کر تمام اقوام کی قومی خودمختاری اور سوشلسٹ بنیادوں پر سماج میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کا ایک انقلابی کردار رہا ہے جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ آج بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ ماضی میں پشتون ایس ایف کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی سامراجیت اور ہر قسم کے ریاستی جبر کیخلاف عملی جدوجہد میں شریک ہیں اور آج تک ان ریڈیکل نظریات سے وابستہ ہیں اگرچہ وہ آج پشتون ایس ایف کا حصہ نہیں ہیں۔

یہ تھا پشتون ایس ایف کا ترقی پسند پہلو جو کہ تاریخ میں یاد رکھا جائیگا۔ اسی طرح دوسری پروگریسیو تنظیمیں بھی پاکستان میں موجود تھیں جو کہ آج ٹوٹی پھوٹی شکل میں وجود رکھتی ہیں۔ جس طرح ہم جانتے ہیں کہ ہر تحریک اور حرکت کا عروج و زوال ہوتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف ترقی پسند تحریکوں کے عروج و زوال کی تاریخ وجود رکھتی ہے۔ کچھ تنظیمیں اپنی قیادت کی غداری کی وجہ سے اور کچھ تنظیمیں ریاستی جبر اور بربریت کے زیر اثر زوال پذیر ہو چکی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے وقت کے ساتھ اپنے نظریات کو پیچھے چھوڑ کر اور غلط طریقہ کار کے ذریعے خود کو بربادی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 9 فروری 1984ء کو فوجی آمر ضیاء الباطل نے طلبہ یونینز اور تنظیموں پر پابندی لگا کر ترقی پسند طلبہ سیاست کے خاتمے کا بے رحمانہ آغاز کیا اور تعلیمی اداروں میں ریاستی پشت پناہی میں مذہبی بنیاد پرست اور فاشسٹ تنظیموں کو متعارف کروایا۔ اسلامی جمعیت طلبہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو ریاست نے تعلیمی اداروں پر مسلط کیا۔ اسی طرح تعلیمی نصاب میں مذہبی تعصبات کو فروغ دینے کے لئے تبدیلیاں کی گئیں اور دانستہ طور پر طالبعلموں کو جدیدیت اور ترقی پسند سوچ سے دور رکھا گیا جس کے منفی اثرات آج تک معاشرے پر حاوی ہیں اور تعلیمی اداروں میں آزادانہ سوچ اور تنقید پر قدغن لگایا۔ اس نصاب کی وجہ سے طلبہ میں تخلیقی صلاحیتیں ختم ہوکر رہ گئیں اور ایک گھٹن زدہ ماحول کو فروغ دیا گیا جس کے زیر اثر پروگریسیو تنظیموں میں بھی علمی اور صحت مند ماحول کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ آج بھی کچھ ترقی پسند لوگ اداروں کے اندر غیر منظم شکل میں موجود ہیں لیکن ان کے پاس نہ کوئی منظم تنظیم ہے او نہ کوئی ادارہ جاتی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب بچی کھچی ترقی پسند طلبہ تنظیموں کی قیادتوں نے اصل ہدف کو تبدیل کرکے ان تنظیموں کو ثانوی کرداروں کے پیچھے لگا دیا۔ نظریات کا خاتمہ کر کے ان کی سیاست کو ہاسٹل الاٹمنٹ، ڈگری نکلوانا، داخلے کروانا اور بالخصوص غنڈہ گردی تک محدود کر دیا گیا۔

دوسری تنظیموں کی طرح ’’پشتون ایس ایف‘‘ کو بھی نظریاتی سیاست کے بجائے ذاتی مفادات اور اشخاص تک محدود کر دینا زوال پذیری کی طرف لے گیا۔ آج کی پشتون ایس ایف کے ارکان اور قیادت کو اپنے منشور تک کا پتہ نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کے نظریات کا کوئی ادراک ہے۔ تمام قیادت کرپٹ اور ذاتی خواہشات کے جستجو میں ہے۔ نہ کوئی سیاسی تربیت ہے اور نہ ہی کوئی تاریخ، فلسفہ، اور سماجی محرکات پر سٹڈی سرکلز یا تربیتی نشستیں ہوتی ہیں۔ پشتون ایس ایف کے تمام ادارے اور یونٹس محض فرسودہ گروہ کی مانند ہیں جس کے اندر کوئی سیاسی، علمی اور شعوری بحث نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ پشتون ایس ایف کے تاریخی زوال کی نشانی ہے۔ کرپٹ قیادت نے پروگریسیو سیاست کرنے کی بجائے ایک لمبے عرصے سے بدعنوانی، کرپشن اور ذاتی مفادات کے حصول کی سیاست کی جارہی ہے جو کہ تمام ارکان کی سیاسی موت کا سبب بن چکی ہے۔ یہ تنظیم جو سیکولر اور بائیں بازو کی ایک پہچان رکھتی تھی، اب نہ ہی اس کے کوئی نظریات ہیں اور نہ ہی کوئی نظریاتی بنیادیں۔ پشتون ایس ایف جو کہ اب ایک فرسودہ گروہ کی مانند ہے، لیفٹ اور رائٹ کی سیاست میں فرق کا بھی ادراک نہیں رکھتی۔

اس تنظیم میں اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج تک کسی ایک لیڈر کو نہیں دیکھا جو کہ سنجیدہ سیاسی تجزیہ کرسکتا ہو۔ براجمان ٹولے کی طرف سے باقاعدہ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی نظریاتی شخص یا افراد تنظیم کے اوپری ڈھانچے تک پہنچنے نہ پائے۔ یہ ان نظریات سے غداری کا ہی نتیجہ ہے کہ پشتون ایس ایف کے اندر مشال خان کے قتل میں ملوث کاشف صافی، ملنگ جان اور مایار جیسے ’کارکن‘ پیدا ہو رہے ہیں۔ بلکہ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ پشتون ایس ایف کے اکثریت ممبران عملی طور پر اسلامی جمعیت کے غنڈوں کی طرح سوچتے ہیں۔ جمعیت اور پشتون ایس ایف کے درمیان کوئی نظریاتی فرق تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ اس تمام عمل کے پیچھے پارٹی کی قیادت پر براجمان حکمران طبقے کے لوگ ہیں۔ تنظیم کی قیادت قومی جدوجہد اور طبقات کی آزادی کے بجائے اس کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایسے لوگوں کو باقاعدہ طور پر پارٹی کے اندر سرزنش کی جاتی ہے جو ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں اب پشتون ترقی پسند نوجوانوں کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ ان تمام فرسودہ روایات کو ختم کر کے ان کے کھنڈرات پر سائنسی سوشلزم کے جدید اور سائنٹیفک نظریات پر نئی تنظیمیں تعمیر کی جائیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.