|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان|
غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان میں کچھ دن قبل فزکس ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ نے وائس چانسلر کو درخواست جمع کروائی کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ظفر وزیر اور ان کے ساتھی پروفیسر خالد خٹک نے پیپرز میں نمبر دینے کا کہہ کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ پچھلے عرصے میں غازی یونیورسٹی میں طلبہ کو پروفیسرز کی طرف سے جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کے خلاف طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔
سوشل میڈیا اور مختلف مقامی اخبارات میں رپورٹ ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے رسمی طور پہ فیس بک پہ پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہراسمنٹ میں ملوث پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس سے قبل بھی غازی یونیورسٹی میں پروفیسرز کی طرف سے ہونے والے ہراسمنٹ کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر زین العابدین کے خلاف جب ہراسمنٹ کی شکایت موصول ہوئی تب وہ یونیورسٹی کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کا حصہ تھا بعد ازاں اس واقعے کو دبا دیا گیا۔
کرونا وبا کے دوران جب آن لائن کلاسز چل رہی تھیں تب غازی یونیورسٹی کے پروفیسروں کی طرف سے طالبات کو جنسی ہراسانی کے بے تحاشہ واقعات سامنے آئے۔ سمسٹر سسٹم میں پروفیسرز کو پیپر بنانے سے لے کر چیک کرنے، سیشنل مارکس دینے جیسے لامحدود اختیارات حاصل ہونے کی وجہ سے ان واقعات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ کرونا وبا کے دوران جب یونیورسٹی کے طلبہ فزیکل امتحانات کے خلاف احتجاج پہ موجود تھے تب مذاکرات کیلئے آنے والے تب کے اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ اور چیف سیکورٹی انچارج مفتی عبدالرزاق نے کہا ”یونیورسٹی کھلے گی، لڑکیاں آئیں گی، مزے ہوں گے“. بعد ازاں یہ ویڈیو ملک بھر میں وائرل ہونے کے بعد مفتی عبدالرزاق کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ان واقعات میں بیشتر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کے خلاف شکایات ملی ہیں۔ کئی بار کمیسٹری ڈیپارٹمنٹ سے بھی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے خلاف طالبات کی طرف سے ہراسمنٹ کی شکایات سوشل میڈیا پہ آئیں۔ زوالوجی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر خضر سمیع اللہ کی وجہ شہرت طالبات کو رپیٹ دینے کا کہہ کر جنسی طور پہ ہراساں کرنا ہے۔ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر علی تارڑ نے بلوچ طلبہ کے ہونے والے سٹڈی سرکل کو سیکورٹی انچارج کے ساتھ مل کر ختم کرنے کا کہا اور بلوچ طالبات کو ہراساں کیا۔
کشف فاؤنڈیشن کے 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق انہیں 20741 ہراسمنٹ کی شکایات موصول ہوئیں، جن میں 16981 شکایت یعنی کل کا 82 فیصد یونیورسٹی طالبات کی اپنے پروفیسرز کی طرف سے کی گئی ہراسمنٹ کی شکایات تھیں۔ اس کے ساتھ ہی جن افراد کے خلاف یہ شکایات موصول ہوئیں تھیں ان میں سے اکثریت یونیورسٹیوں میں موجود اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کا حصہ تھے۔
جبکہ لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی 2022ء میں لاہور کی مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی ریسرچ کے مطابق 90 فیصد یونیورسٹی طالبات نے بتایا کہ انہیں دوران تعلیم یونیورسٹی کی حدود میں روزانہ کی بنیاد پر زبانی طور پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بقیہ 10 فیصد کے مطابق انہیں مختلف طرح سے ہراساں کیا گیا۔
پروگریسیو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ طلبہ کو یہ لڑائی طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ جوڑتے ہوئے لڑنا ہوگی۔ جب تک ہراسمنٹ کرنے والے افراد تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کا حصہ ہیں اس طرح کے واقعات کا تدارک نہیں کیا جا سکتا۔
پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعے کی بھرپور مذمت کرتاہے، اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد ذمہ داران کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہراسمنٹ کے خلاف طلبہ کو اکٹھا ہو کر لڑنا ہوگا۔منظم جدوجہد سے ہی ہراسمنٹ کرنے والے انسان نما غلیظ جانوروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے اور تعلیمی ادروں میں ہراسمنٹ کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ طلبہ غازی یونیورسٹی کے ہر ڈپارٹمنٹ اور کلاس سے طلبہ کے منتخب نمائندو ں پر مبنی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی بنائیں، اس کمیٹی کے ذریعے طلبہ کو منظم کر کے احتجاج کریں۔ ساتھ ہی اس کیمٹی کو ڈیرہ غازی خان میں موجود دورسرے تعلیمی ادروں کے طلبہ سے جوڑ کر شہر کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے پھر اس کو بڑھا کر صوبے اور ملک بھر کی اسی طرح کی طلبہ کی منتخب شدہ کمیٹی کے ذریعے ملک گیر سطح پر تحریک کا آغاز کیا جائے۔
پروگریسو یوتھ الائنس ہراسمنٹ کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کرنے جا رہا ہے۔ غازی یونیورسٹی میں موجودہ ہراسمنٹ کے واقعے کے خلاف احتجاجی کیمپیئن شروع کر دی ہے، بہت جلد اس حوالے سے احتجاج بھی کیا جائیگا۔ پی وائی اے غازی یونیورسٹی میں طلبہ کی منتخب شدہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اس احتجاجی تحریک کا حصہ بنیں۔
دوستو! پہلے ہی طلبہ فیسوں میں بے تحاشہ اضافے، تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں، سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری، ہاسٹل و ٹرانسپورٹ کی کمی، ڈسپلن کے نام پہ انتظامیہ کی بے جا دھونس، طلبہ یونین پر پابندی اور بے روزگاری کے خلاف غصے میں ہیں۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں منظم ہو کر باقی مسائل کے خلاف بھی انہی کمیٹیوں کے ذریعے جدوجہد شروع کی جائے۔ ملک کے موجودہ معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران کے پیش نظر آنے والے عرصے میں ان مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس لیے ان تمام مسائل سے مستقل نجات کے لیے ان مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو منظم کرنا ہوگا۔
اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بناؤ!
ایک کا دکھ سب کا دکھ!
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!