غازی یونیورسٹی کی حالتِ زار اور طلبہ کو درپیش مسائل

|تحریر: ذوالفقار علی |

ویسے تو پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں فزیکل انفراسٹرکچر کی شدید کمی اورتعلیمی و دیگر سہولیات کا فقدان ہے، مگر غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کو اس معاملے میں الگ مقام حاصل ہے۔ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کو 2012ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج سے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، مگر تب سے اب تک کے پچھلے آٹھ سالوں میں نہ تو نئی بلڈنگ و کلاس رومز تعمیر کر کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا گیا اور نہ ہی نئی فیکلٹی کو لائی گئی۔ ابھی تک پرانے سٹاف و فیکلٹی سے ہی معاملات کو چلانے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔

غازی یونیورسٹی جو کہ دراصل ایک بھوت بنگلہ دکھائی دیتی ہے، کی بلڈنگ انتہائی خستہ ہے اور گرنے کے قریب ہے۔ غازی یونیورسٹی کی انتظامیہ جہاں اپنی لوٹ مار اور منافعوں میں اضافے کے لیے ایک طرف ایوننگ پروگرامز متعارف کرارہی ہے، وہاں دوسری طرف مارننگ کے طالب علموں کے لیے بھی کلاس رومز موجود نہیں ہیں اور مارننگ پروگرامز کے طالب علموں کی کلاسز بھی ایوننگ ٹائم کو منتقل کی جا رہی ہیں۔ کلاس رومز کی قلت کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ کئی ڈپارٹمنٹس کے طالب علم ٹاٹ سکولوں کی طرح کھلے آسمان میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں طالب علم یہ بات جاننے سے قاصر ہیں کہ ان سے حاصل ہونے والی بھاری بھرکم فیسیں کہاں جا رہی ہیں۔

غازی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی اکثریت انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور کئی طالب علم دور دراز علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اگر طالبعلموں کے گھریلو حالات کو دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ زیادہ تر کی ماہانہ آمدن دس ہزار سے 20 ہزار ماہانہ تک ہے اور اس آمدن میں ان کے لیے گھر کا چولہا جلانا بھی مشکل ہے۔ یونیورسٹی فیسوں، ہاسٹل کے اخراجات اور مہنگائی میں دن بدن ہونے والا اضافہ غریبوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کرتا جا رہا ہے۔ ہر سال کئی طالب علم اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہیں۔

غازی یونیورسٹی کے اندر طالب علموں کی رہائش کے لیے ہاسٹل کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے اور طالب علم رہائش کے لیے ماہانہ 5 سے 10 ہزار روپے میں پرائیویٹ ہاسٹلوں میں رہائش حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور ان ہاسٹلوں میں طلبہ کو میس سے لے کر سیکورٹی تک کے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولیات بھی طالب علموں کے لیے سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ یونیورسٹی بسوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے اور ڈی جی خان جیسے چھوٹے سے شہر میں بھی طالب علموں کو لانے اور لے جانے کے لیے بسیں موجود نہیں ہیں۔ طالب علموں کو اپنے گھروں اور ہاسٹلوں تک جانے کے لیے رکشوں کے کرائے ادا کرنے پڑتے ہیں۔

اسی طرح ہفتے کے آخر میں طالب علموں کو اپنے شہر سے باہر دور دراز کے قصبوں میں جانے کے لیے پرائیویٹ مہنگی ٹرانسپورٹ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

یونیورسٹی کے اندر طالب علموں کے لیے نہ تو کوئی لائبریری موجود ہے اور نہ ہی گروپ اسٹڈی کے لیے کوئی دوسری جگہ موجود ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی میں صحت کی سہولیات کا بھی فقدان ہے اور پینے کے صاف پانی کی عدم موجودگی کا بھی سنگین مسئلہ درپیش ہے۔

یونیورسٹی کے اندر جہاں فزیکل انفراسٹرکچر کی پسماندگی عروج پر ہے وہیں شدید کلچرل پسماندگی بھی موجود ہے۔ ایک طرف جہاں یونیورسٹی کی فیکلٹی کی شدید کمی ہے وہیں فیکلٹی کی اکثریت کلچرل پسماندگی کا شکار ہے اور طلبہ کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی اور طلبہ کے اٹھنے بیٹھنے تک کی معلومات حاصل کی جاتیں ہیں اور اس بیش قیمت معلومات کو طالب علموں کو بلیک میل کرنے اور دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈپاڑٹمنٹس کے اندر فیکلٹی کی طرف سے لابیاں (Lobbies) بنانا اور طالب علموں کو مخالف لابی کے لیکچرارز سے میل جول سے منع کیا جانا معمول ہے۔ غازی یونیورسٹی کے اندر طالبات کی جنسی ہراسانی کا انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور جہاں ایک طرف طالبات کے لیے جبر و خوف کا ماحول بنا کے رکھا گیا ہے وہاں دوسری جانب طلبہ کے حقوق کی بات کرنے والے کسی سنجیدہ پلیٹ فارم کی بھی شدید کمی موجود ہے۔

یونیورسٹی کے اندر تعلیم کے معیار کی بات کی جائے تو یہاں حال بھی ملک بھر کی دیگر یونیورسٹیوں سے مختلف صرف اتنا ہے کہ یہاں معاملات زیادہ سنگین ہیں۔ پروفیسرز اور لیکچرزز طالب علموں کو نوٹس تھما کر اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور طالب علموں کو اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے رٹہ لگانے، ان کی چاپلوسی کرنے اور ان کو راضی رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ باقی تعلیمی اداروں کی طرح سی پی اور سیشنل مارکس ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ طالب علموں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے اور انہیں غلام بنائے رکھنے کے لیے انہیں سیاست سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ پچھلے عرصے میں ملک بھر کی طرح یہاں بھی انتظامیہ نے اپنی پالتو غنڈہ گرد غیر نظریاتی طلبہ تنظیموں کے ذریعے طلبہ سیاست کو بہت بدنام کیا اور طالب علموں کو سیاست سے متنفر کیا ہے۔

اسی طرح داخلے کے وقت طلبہ سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کے لیے ایفی ڈیوٹ بھی لیا جاتا ہے لیکن خود پروفیسر حضرات کی اپنی یونین بھی موجود ہے اور انتخابات بھی کرائے جاتے ہیں۔ غازی یونیورسٹی کے طالب بہت جلد اپنے مسائل کے حل کے لیے منظم ہو کر یونیورسٹی انتظامیہ کی خواہشات پر پانی پھیریں گے اور اپنے حقوق ان سے چھین کر حاصل کریں گے۔

یہاں ہم آخر میں اپنی اس تحریر کے ذریعے اپنے دیگر طالبعلم ساتھیوں اور انتظامیہ تک اپنے مطالبات پہنچانا چاہیں گے۔

مطالبات:

(1) یونیورسٹی فیسوں کے اندر حالیہ ہونے والے اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے اور طالب علموں کو سستی تعلیم مہیا کی جائے۔
(2) یونیورسٹی کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے اور پرانی اور بوسیدہ عمارات کی جگہ نئی تعمیرات کی جائیں اور کلاس رومز کا اضافہ کیا جائے۔ یونیورسٹی کے اندر گراسی پلاٹس لگائے جائیں اور مین لائبریری تعمیر کی جائے۔
(3) یونیورسٹی کے اندر طلبہ کی تعداد کے تناسب سے نئے گرلز اور بوائز ہاسٹل تعمیر کیے جائیں۔
(4) یونیورسٹی کے ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر بنایا جائے اور یونیورسٹی کے لیے نئی بسیں جلد از جلد خریدی جائیں۔
(5) یونیورسٹی سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنے کیلئے کرپشن میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔
(6) صاف پانی کی عدم فراہمی کے سنگین مسئلے کو حل کیا جائے۔
(7) صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے اور طالبات کی جنسی ہراسانی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس عمل میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔
(8) طالب علموں کو سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کی اجازت دی جائے اور یونیورسٹی کے معاملات میں طالب علموں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے۔
(9) طلبہ یونین بحال کی جائیں اور جلد از جلد طلبہ یونین کے انتخابات کراتے ہوئے طلبہ کو جمہوری انداز میں اپنے نمائندے منتخب کرنے دیے جائیں۔

مفت تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں!
جینا ہے تو، لڑنا ہوگا!
طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.