پی وائی اے کا اعلامیہ: یونیورسٹی ملازمین کے احتجاجوں سے اظہار یکجہتی، بڑھو طلبہ مزدور اتحاد کی جانب!

|مرکزی انفارمیشن سیکرٹری، پی وائی اے|

جوں جوں پاکستان کا سیاسی و معاشی نظام تباہ ہو رہا ہے ویسے ویسے تعلیمی شعبہ کی بدحالی اور مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب تو صورت حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یونیورسٹیوں کے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دی جا رہیں۔ لہٰذا ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا دیگر الاؤنسز کی کٹوتیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری طرف فیسیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ بہت بڑی اکثریت کیلئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر پانا یا جاری رکھ پانا ناممکن بن چکا ہے۔

تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا بروقت ادائیگی نہ ہونا، الاؤنسز نہ ملنا اب کسی ایک دور دراز یونیورسٹی کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ اس تواتر کے ساتھ ہونے لگا ہے کہ نیا معمول بن گیا ہے۔

پچھلے دو سال سے بلوچستان یونیورسٹی اور بیوٹمز (بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز) کے ملازمین تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک مہینہ قبل ہمیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ملازمین کا احتجاج دیکھنے کو ملا اور بوقت تحریر کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں ملازمین اپنے تنخواہوں اور الاؤنسز کے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔

اس مرحلے پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان مسائل کی وجوہات کو سمجھا جائے اور کامیابی کے لیے درست حکمت عملی تیار کی جائے۔

کٹوتیوں اور عدم ادائیگیوں کی وجوہات کیا ہیں؟

پچھلے لمبے عرصے سے پاکستانی حکمران شعبہ تعلیم کو مکمل نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔ جن میں تمام سیاسی پارٹیاں اور جرنیل شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی گئیں۔ اور یونیورسٹیوں کو خود اپنے اخراجات پورے کرنے کا کہا گیا۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کل تعلیمی بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی بجٹ میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طور پر 2017-18 ء میں ایچ ای سی کا ریکرنگ بجٹ 63.1 ارب روپے تھا اور پانچ سال گزرنے کے بعد 2022-23 ء کے مالی سال میں یہ بجٹ صرف 1.9 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 65 ارب روپے ہوا ہے۔ اب ذرا اس حقیقت کو سامنے رکھیں کے پچھلے پانچ سالوں میں روپے کی قدر میں 150 فی صد کمی ہوئی ہے اس لیے اگر تعلیمی بجٹ 2017-18 ء کی سطح تک بھی لے جانا ہے تو کم از کم 147 فی صد اضافہ ہونا چاہیے۔

کیا حکومت یہ اضافہ کرے گی؟ ایک دیوانہ ہی اس کا جواب ہاں میں دے سکتا ہے۔ حکومت مسلسل ہر طرح کے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی کٹوتیاں کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ جہاں ایک طرف ان بنیادی انسانی ضرورت کے شعبوں کو مکمل نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف شعبہ تعلیم اور صحت کی نجکاری (یعنی انہیں اونے پونے داموں سرمایہ داروں کو بیچنا) کی پلاننگ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ وہ پاکستانی حکمران جو قدرے بہتر معاشی صورت حال میں ان کلیدی شعبوں کو نظر انداز کر رہے تھے، بھلا موجودہ معاشی بحران میں کیونکر پیسے دیں گے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت آجائے، اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ داروں اور امیروں کی پارٹیاں ہیں نہ کہ مزدوروں اور غریبوں کی۔ ان سب کے معاشی پلان سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے تحت بنتے ہیں نہ کہ عوامی ضروریات کو مدنظر رکھ کر۔ عوامی ضروریات کو مدنظر رکھ کر پلاننگ صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے۔

دوسری بات یہ کہ یونیورسٹی کو ملنے والے پیسے کا ایک اچھا خاصہ حصہ اعلیٰ انتظامیہ کی مراعات اور پراجیکٹس میں ان کی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے مالی معاملات کو شفاف بنانے کیلئے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ میں طلبہ کی منتخب کردہ نمائندگی اور یونیورسٹیوں کی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات کا تمام طلبہ اور ملازمین کے سامنے ماہانہ وار پیش کیے جانے سے ہی تدارک کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس طرح ملازمین کی تنخواہیں بھی مل جائیں گی اور طلبہ کی فیسیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ یہ کام کروانے کیلئے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرانا ہوگا۔

تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیسے ممکن ہے؟

اس وقت پاکستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو سرکاری شعبہ تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے کوئی سنجیدہ پلان رکھتی ہو۔ اگر کوئی ہوتی یقیناً طلبہ و ملازمین اس سے رجوع کرتے اور اپنے مطالبات منواتے۔ نہ ہی پاکستان کی عدالتوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں سے تعلیمی بجٹ میں اضافے کیلئے کوئی سوو موٹو لیا جائے گا۔ وہ تو اس وقت حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی لڑائی کا حصہ ہیں۔ اور ہمیشہ سے ہی سرمایہ داروں اور امیروں کو تحفظ فراہم کرنے کا کام کرتی آرہی ہیں۔ اسی طرح نہ ہی سرمایہ دارانہ میڈیا اس اہم ترین مدعے کو اٹھائے گا۔ لہٰذا ملازمین اور طلبہ کے پاس واحد رستہ یہی بچتا ہے کہ وہ خود متحد اور منظم ہوں۔ ملازمین کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے کیمپس کے طلبہ کے ساتھ اتحاد بنائیں۔ کیوں کہ اس وقت طلبہ بھی شدید ترین مسائل کا شکار ہیں، جن میں مہنگی تعلیم، ہراسمنٹ، ہاسٹلوں کے مسائل، مستقبل میں روزگار کی کوئی گارنٹی نہ ہونا شامل ہیں۔

ایسے میں ملازمین کو چاہیے کہ وہ مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی کے طلبہ کے مطالبات کو اپنے مطالبات میں شامل کریں اور دوسری طرف طلبہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر ایک کلاس میں مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی کی بنیاد پر نمائندے بنائیں اور ان کی ڈیپارٹمنٹ، فیکلٹی اور یونیورسٹی کی سطح پرمنتخب کمیٹیاں تشکیل دیں اور ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کریں۔

اگر یہ ہوجاتا ہے تو اعلیٰ انتظامیہ کا باپ بھی طلبہ اور ملازمین کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا ہے۔ ہاں یہ ایک مشکل کام لگ رہا ہے مگر مسائل بھی کہاں آسان ہیں؟ حکمران طبقہ مسلسل تقسیم کرنے پر عمل کر رہا ہے تو ہمیں بھی مسلسل اتحاد کے لیے تگ ودو کرنا ہوگی۔

اسی طرح پاکستان کا معاشی بحران مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا۔ پاکستان کے حکمرانوں کے نئے قرضے لے کر پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی کرنے کے علاوہ اور کوئی پلان نہیں ہے۔ اور یقیناً یہ پلان زیادہ لمبا عرصہ نہیں چل سکتا۔ جلد ہی پاکستانی معیشت دیوالیہ قرار دے دی جائے گی۔ لہٰذا ایسے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات اپنے ذہن نشین کرنا ہوگی کہ اب ”جینا ہے تو لڑنا ہوگا!“۔ اب جدوجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اور یہ لڑائی علیحدہ علیحدہ نہیں جیتی جا سکتی۔ اب ضرورت یہ ہے کہ تمام فیکٹریوں اور سرکاری اداروں کے محنت کشوں، اور طلبہ کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے ملک بھر میں عام ہڑتال کی جانب بڑھا جائے۔

پروگریسو یوتھ الائنس ملازمین کے مطالبات اور جدوجہد کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتی ہے۔ ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ اب طلبہ – مزدور اتحاد کو ملک گیر سطح پر پھیلانے کیلئے ہم ایک ملک گیر کمپین کا آغاز کر رہے ہیں۔ جس میں پی وائی اے کے کارکنان طلبہ اور ملازمین کو ملک کی ہر یونیورسٹی میں یکجا کریں گے۔ یہی اتحاد نا صرف ملازمین اور طلبہ کو ان کے حقوق دلوائے گا بلکہ شعبہ تعلیم کو منہدم ہونے سے بھی بچائے گا۔ اسی طرح اس اتحاد کے دائرہ کار کو پھیلاتے ہوئے جب باقی شعبوں کے محنت کشوں کو بھی شامل کیا جائے گا تو یقیناً ہم ایک ایسی طاقت بن جائیں گے جو پھر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھے گی۔

بڑھو طلبہ مزدور اتحاد کی جانب!
بڑھو سوشلسٹ انقلاب کی جانب!
انقلاب کے تین نشان۔۔۔طلبہ، مزدور اور کسان!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.