کورونا وبا ء اور آن لائن کلاسز کا غیر مؤثر اجرا

|تحریر: عثمان ضیاء|

کورونا وائرس کی وبا ء پھوٹنے پر ریاست نے فوری طور پر تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا، نتیجتاََ تمام سرکاری اور پرائیویٹ جامعات بھی بند ہو گئیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو یہ حکم دیا کہ فوری طور پر آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا جائے جس پر ہر یونیورسٹی نے اپنے تئیں کوششوں کا آغاز کر دیا۔ صاحبانِ علم جانتے ہیں کہ اتنی قلیل مدت میں ہر یونیورسٹی کے لیے آن لائن کلاسز کا نظام بنانا، جانچنا اور نافذ کرنا بجائے خود ایک مشکل کام ہے لہٰذا بیشتر یونیورسٹیوں نے انٹر نیٹ پر دستیاب تیار ذرائع سے کام لینے کا فیصلہ کیا اور ایچ ای سی کو یقین دہانی کروا دی کہ فوری طور پر آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ اساتذہ کو آن لائن کلاسز کے لیے مواد مہیا کرنے کا حکم صادر ہوا اور طلبہ کو آن لائن کلاسز میں رجسٹر ہونے کا کہا گیا۔ غرضیکہ چند پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں میں یہ عمل شروع بھی ہو گیا جبکہ چند یونیورسٹیا ں ابھی آن لائن کلاسز کا آغاز نہیں کر سکیں۔ اس تمام صورتحال میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب طلبہ نے آن لائن کلاسز کے خلاف آوازاٹھانا شروع کر دی اور انٹرنیٹ پر کئی آن لائن پیٹیشنز گردش کرنے لگیں جن پر دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں طلبہ نے برقی دستخط ثبت کر دیے علاوہ ازیں #WeRejectOnlineEdu اور کے رجحانات ٹوئٹر پر تیزی اختیار کرنے لگے۔

آئیے اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے تدریسی استعمال کا تصور نیا ہے اور نہ ہی اجنبی بلکہ جدید دنیا میں تدریسی عمل کو مؤثر بنانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کئی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی اہمیت کا اقرار یا انکار کرنے سے پیشتر زمینی حقائق کو نہ صرف سمجھنا ضروری ہے بلکہ پاکستان جیسے ممالک میں بیک جنبشِ قلم اس نظام کے نفاذ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا تجزیہ انتہائی ضروری ہے۔ قصہ کچھ یو ں ہے کہ آن لائن تدریس پر کام کرنے والے محققین اور کاروباری کمپنیاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم کو بنیاد بناتے ہوئے عموما یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان برقی فاصلاتی تعلیم کے لیے ایک بڑی تجربہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کم و بیش تیرہ لاکھ لوگ پہلے ہی اس فاصلاتی نظام تعلیم سے بظاہر استفادہ کر رہے ہیں۔کچھ محققین نے اس امر کو کھول کردیکھنے کی کوشش بھی کی ہے، میرے زیر ِ مطالعہ ایک تحقیق کے مطابق پاکستا ن میں اگر آئن لائن تدریسی نظام کو عام حالات میں اگر نافذ کیا جائے تو اس میں تین بڑے چیلنجز درپیش ہوں گے جن میں پہلا اساتذہ کی اس عمل کے لیے تیاری، دوسرا طلبہ کی تیاری اور تیسرا اداروں کی تیاری ہے۔ اداروں کی تیاری کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی ایچ ای سی نے آن لائن کلاسز کے اجراء کا حکم جاری کیا، بیشتر یونیورسٹیوں کے پاس زمینی ضروریات کے مطابق اپنا کوئی نظام موجود نہیں تھا لہٰذا سب نے انٹر نیٹ پر دستیاب کسی نہ کسی نظام سے کام چلانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ طلبہ کی جانب سے احتجاج کی صورت میں برآمد ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کا یہ برقی احتجاج اپنی وجوہات کی وضاحت بھی بخوبی کر رہا ہے۔ اکثر طلبہ نے بہت واضح الفاظ میں یہ لکھا ہے کہ نہ صرف یہ کہ طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کے پاس تیز رفتار انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں بلکہ جن کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے ان کے لیے بھی یہ آئن لائن کلاسز غیر مؤثر ہیں کیونکہ یونیورسٹیاں جو دستیاب ذرائع استعما ل کر رہی ہیں وہ انتہائی بنیادی نوعیت کے ہیں اور صارفین کو وہ تمام سہولیات مفت مہیا نہیں کرتے جن سے عام کمرہ جماعت میں کی جانے والی سرگرمیاں آن لائن کی جا سکیں مثلاََبراہ راست سوال و جواب، عملی سرگرمیا ں وغیرہ۔ علاوہ ازیں اساتذہ کی ایک بڑی تعدا د کے پاس آئن لائن کلاسز کی مطلوبہ تربیت موجود نہیں ہے جو عام طور پر آن لائن تدریس کے عمل کو سست اور غیر دلچسپ بنا دیتی ہے۔ انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آن لائن کلاسز میں شریک ہونے کے لیے کمپیوٹر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ تمام طلبہ کے پاس موجود نہیں۔ آن لائن کلاس کسی بھی صور ت صرف سمارٹ فون پر نہیں لی جاسکتی کیونکہ کلاس میں کی جانے والی سرگرمیوں میں تفویضات و امتحانات کے لیے کمپیوٹر ہی کار آمد ہوتا ہے لہٰذا یہ دلیل درست نہیں ہے کہ آج کل اکثریت کے پا س سمارٹ فون ہے جو ہر کام کر دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سمارٹ فون ہر وہ کام نہیں کر سکتا جو آن لائن کلاسز میں کیا جاتا ہے۔ احتجاج کی ایک اور بڑی وجہ طلبہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ ان سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کرنے کے بعد یونیورسٹیاں ایک ناقص آن لائن کلاسز کے نظام کے اجراء سے صرف اورصرف اپنا منافع بچانے اور اگلے سمسٹر کی فیسیں وصول کرنے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ طلبہ واشگاف الفاظ میں یہ بات کر رہے ہیں کہ آئن لائن تدریس کا یہ عمل غیر مؤثر ہے کیونکہ کسی بھی یونیورسٹی نے یہاں کے زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ بیک جنبش قلم ایک ناقص نظام کا نفاذ کرکے صرف اپنے منافع بچانے کی کوشش کی ہے جس میں نجی یونیورسٹیاں پیش پیش ہیں۔ دوسری جانب اگر سرکاری یونیورسٹیوں کی بات کی جائے تو ان میں طلبہ کی بھاری اکثریت غریب طلبہ پر مشتمل ہے جن کے پاس یا تو انٹرنیٹ میسر نہیں یا کمپیوٹر موجود نہیں۔ مسئلے کی گھمبیرتا کا اندازہ لگانے کے لیے ہم ایک مثال سے کام لیں گے۔ چند سرکاری یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کے لیے گوگل کلاس روم کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گوگل کلاس روم میں اساتذہ تدریسی مواد کو اپلوڈ کرتے ہیں جسے رجسٹر کرنے والے طلبہ رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اساتذہ کوئی ایک دستاویز اپلوڈ کرنے کے بعد عموماََ طلبہ کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اس دستاویز کا مطالعہ کریں اور تفویض کیے جانے والے کاموں کو مطلوبہ وقت میں مکمل کرکے جمع کروائیں یاپھر برقی کوئز میں شامل ہوں۔ گوگل کلاس روم کے اند ر کسی بھی موضوع پر Realtime تدریس یا رہنمائی کی براہ راست سہولت موجود نہیں ہوتی لہٰذا اس کام کے لیے اساتذہ یوٹیوب پر ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرتے ہیں یا یوٹیوب لائیو کا استعما ل کرتے ہوئے براہ راست تدریس کا کام سرانجام دیتے ہیں اور ان دونوں صورتوں میں طلباہ کا اساتذہ سے حقیقی رابطہ معطل رہتا ہے۔ طلبہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اساتذہ عموماََ یوٹیوب پر ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرنے یا براہِ راست آنے کا تکلف کیے بغیر صرف برقی دستاویز اور سوالنامے اپلوڈ کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں جو اس سارے عمل کو مزید غیر مؤثر بنا تا ہے۔ آئن لائن کلاسز پر مشتمل فاصلاتی نظام تدریس پر ایک دم منتقل ہو جانے سے پہلے نہ ہی ایچ ای سی نے اور نہ ہی یونیورسٹیوں نے یہ سوچا کہ کیا ہمارے پاس مطلوبہ ذرائع میسر ہیں بھی یا نہیں۔ علاوہ ازیں جہاں تک تدریس کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا تعلق ہے اس کے لیے مطلوبہ ذرائع اور وسائل کا موجود ہونا، اساتذہ و طلبہ کا تربیت یافتہ ہونا اور استعمال کیے جانے والے ٹولز کاصارف دوست ہونا بہت ضروری ہے اور فی الوقت ان تینوں شرائط میں سے ایک بھی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ علاوہ ازیں ایسے مضامین جن کے لیے لیبارٹریوں یا عملی کام کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لیے متبادل ورچوئل لیبارٹریاں تیار کرنا، جانچنا اور جاری کرنا ہنگامی حالات میں ممکن نہیں۔

اس سارے بکھیڑے میں ایک اور امر بالکل واضح ہے کہ وہ طلبہ جن کے پاس کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں وہ یقینا آن لائن تدریسی عمل سے استفادہ نہیں کر سکیں گے اور نتیجتاََ نا کام قرار پائیں گے جس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ انہیں یا تو تعلیمی عمل معطل یا ختم کرنا پڑے گا یہ پھر دوبارہ فیسیں ادا کر کے نئے سرے سے یہ کورسز پڑھنے پڑیں گے اور یہ اضافی مالی بوجھ طلبہ اور ان کے والدین کے لیے موجودہ معاشی صورتحال کو مشکل تر بنا دے گا۔

ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ موجود ہ حالات میں بغیر مطلوبہ وسائل کی دستیابی اور فراہمی کے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ آن لائن تدریس کا یہ عمل کسی بھی طرح سے سود مند ہوگا۔ نجی یونیورسٹیوں کے لیے یہ فیس وصولی جاری رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ مطالبہ حقائق سے عین مطابقت رکھتا ہے کہ آن لائن تدریس کے عمل کو فی الوقت معطل کرتے ہوئے طلبہ کو عارضی سمسٹر بریک دی جائے اور اس سمسٹر بریک کے دوران نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کو فیس وصولی روکنے کا حکم دیا جائے تاکہ طلبہ اور ان کے والدین کو مالی اور نفسیاتی بوجھ سے چھٹکارا دلایا جا سکے۔ اگر یہ تجربہ جاری رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو طلبہ کی اس سمسٹر کی فیس اور دیگر اخراجات مکمل طور پر ختم کیے جائیں یا پھر حکومت ان کی ذمہ داری لے۔

اس کے علاوہ کورونا وباء کے تناظر میں یونیورسٹیوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ وسائل کی موجودگی کا سروے منعقد کرتے ہوئے حقائق و ضروریات کا تعین کریں اور پاکستانی طلبہ کی ضروریات کے مطابق مقامی سطح پر آئن لائن تدریس کے نظام کو نہ صرف جلد از جلد تشکیل دیں بلکہ اسکی ضروری جانچ پڑتال مکمل کر کے نافذ کریں۔ حکومت ایسے کسی بھی نظام کے نفاذ سے پیشتر یہ بات یقینی بنائے کہ طلبہ کو بغیر کسی اضافی بوجھ کے مفت تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت پورے پاکستا ن میں مہیا کی جائے اور تمام طلبہ کو فوری طور پر کمپیوٹراور دیگر مطلوبہ سہولیات مفت مہیا کی جائیں۔ اسی طرح تمام نجی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو پوری تنخواہ کے ساتھ رخصت کیا جائے اور جو یونیورسٹی پیسہ نہ ہونے کے بہانے بنائے تو فورا اسکے کھاتے کھولے جائیں۔ علاوہ ازیں تمام نجی یونیورسٹیوں کو مستقل قومی تحویل میں لیتے ہوئے فیسوں کے خاتمے کا اعلان کیا جائے اور تعلیم کو بنیادی اور اعلیٰ سطح پر مستقل طور پر مفت کیا جائے کیونکہ مفت تعلیم حق ہے، رعایت نہیں۔

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.