|تحریر: فرحان رشید|
اس وقت ایک طرف اربوں لوگ کرونا وبا کی زد میں ہیں، غربت، مہنگائی، لاعلاجی، بے روزگاری اور دہشت گردی شدت اختیار کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف پورا سیارہ کہیں آگ میں جل رہا ہے تو کہیں پانی میں ڈوب رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اب کوئی مستقبل میں درپیش خطرات نہیں ہیں بلکہ آج ہمیں ان کا سامنا ہے۔
پاکستان بھی مستقل طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کی 2020ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان 5 ویں نمبر پر ہے جہاں 1999ء سے 2018ء تک 152 شدید موسمی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا اور 9989 جانوں کا ضیاع ہوا۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 200 افراد کی موت کے امکانات ہیں جو کہ باقی دنیا (ایک لاکھ میں سے 73) کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے 10 سالوں میں 3 کروڑ افراد موسمی تبدیلیوں کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں میں ہیٹ ویوز (Heat Waves) میں شدت آئی ہے اور 1994ء سے تاحال 112 ہیٹ ویوز آچکی ہیں جو سینکڑوں جانوں کو لقمہ اجل بنا چکی ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرے گا۔ ہیٹ ویوز کے ساتھ ایک مسئلہ موسلادھار بارشوں کا ہے جو پچھلے دو سالوں سے خاص کر سندھ پر عذاب بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ اگست 2020ء میں ہونے والی برسات نے کراچی شہر کو ڈبو دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ کراچی میں 90 سالہ تاریخ میں شدید ترین برسات تھی۔ ان بارشوں کے نتیجے میں کراچی میں سیلابی صورتحال بن گئی جس کے نتیجے میں کچے اور خستہ حال گھروں میں رہنے والے سینکڑوں غریب افراد جان کی بازی ہار بیٹھے۔
اسی طرح سموگ کا مسئلہ انتہائی مہلک شکل اختیار کرچکا ہے۔ 2020ء اور 2021ء میں عالمی سطح پر فضائی آلودگی میں لاہور اور دہلی وقتاً فوقتاً پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود رہے، جبکہ کراچی اس فہرست میں ساتویں نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی اس وقت انتہائی نازک مرحلے میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، جو لگ بھگ چالیس فیصد اموات کا سب بن رہا ہے۔ اوپر بیان کردہ اعداد و شمار ایک بھیانک صورتحال کے عکاس اور مستقبل قریب میں انتہائی خوفناک صورتحال کی پیش بینی ہیں۔ بڑھتے درجہ حرارت سے لے کر بڑھتی برسات تک درپیش مسائل گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافے اور فطری ماحول میں گیسز کی مقدار میں ردو بدل سے جڑے ہوئے ہیں۔
درخت عام طور پر ماحول کے فلٹرز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے اب تک جنگلات 33 فیصد سے کم ہو کر فقط 6 فیصد باقی بچے ہیں۔ ابھی بھی کئی رئیل اسٹیٹ کے نجی، سرکاری و عسکری دھندے ان جنگلات پر اپنے کنکریٹ کے محل تعمیر کرنے میں جُتے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ گرمی کی شدت میں اضافے سے ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں دنیا کا چوتھا گرم ترین درجہ حرات 53.7 ڈگری سینٹی گریڈ بلوچستان کے علاقے تربت میں ریکارڈ کیا گیا۔ درجہ حرارت کا یہ اضافہ ایک طرف پانی کی کمی کا موجب بن رہا ہے تو دوسری طرف پانی کے بخارات میں تحلیل ہونے اور گلیشئیرز کے تیزی سے پگھلنے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2100ء تک پاکستان کے ایک تہائی سے دو تہائی تک گلیشئیرز پگھل چکے ہوں گے یا نہ ہونے کے برابر رہیں گے۔ یقیناً اس کا نتیجہ 2010ء کے سیلاب سے زیادہ بھاری پیمانے پر سیلابوں کی صورت میں نکل سکتا ہے جس کے لیے ریاست بالکل تیار نہیں ہے۔ یاد رہے 2010-14ء کے عرصے میں آنے والے سیلابوں نے تقریبا 3 کروڑ 90 لاکھ افراد کو متاثر کیا، جبکہ 34 لاکھ گھر اور 1 کروڑ 63 لاکھ ایکڑ پر محیط فصلیں برباد ہوئیں۔ اسی طرح لینڈ سلائیڈز کا خطرہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقامی جنگلی و نباتاتی حیات کی تباہی اور مقامی انفرا سٹرکچر بھی متاثر ہوگا۔
فوسل فیولز کا استعمال گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا اہم سبب ہے جبکہ تاحال پاکستان کی درآمدات کا تیس فیصد فوسل فیولز ہیں۔ پاکستان میں 1994-2015ء تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 123 فیصد اضافہ ہوا جس کا 90 فیصد انرجی سیکٹر اور زراعت سے خارج ہوتا ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق اس اخراج میں 20 فیصد کمی کے لیے بھی کم از کم 40 ارب ڈالر درکار ہیں جو یہاں کے حکمران کبھی بھی خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔
پوری دنیا کے سرمایہ دار حکمران طبقات کا ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف رویہ انتہائی غیر سنجیدگی اور انسان دشمنی پر مبنی ہے، اور نہ تو انہوں نے پہلے اس مسئلہ کا کوئی سنجیدہ حل نکالنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں کریں گے۔ اس کی بنیادی وجہ منافع کی لالچ ہے، جو انہیں اربوں انسانوں اور پورے سیارے کی تباہی جیسی وحشت ناک حقیقت سے بھی نظریں چرانے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے دولت مند ترین 10 فیصد افراد 50 فیصد گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں۔ جبکہ تباہ حال 50 فیصد افراد صرف 10 فیصد اخراج کا۔ یعنی 50 فیصد لوگ اگر گھر لکڑیاں یا کوئلے نہ جلائیں اور شاپر استعمال نہ بھی کریں تب بھی 90 فیصد گرین ہاؤس گیسز کا اخراج جاری رہے گا۔ اسی ایک مثال سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں حکمران اس انتہائی سنجیدہ مسئلہ کے حل کی طرف سنجیدہ نہیں ہیں۔
ہاں مگر وقتاً فوقتاً اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک کی حکومتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر بیان بازی ضرور کی جاتی ہے کہ ہم اتنے ارب درخت لگا دیں گے وغیرہ۔ مگر اس لفاظی کا مقصد بھی عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا ہے۔ حالیہ عرصے میں حکمران طبقے کی جانب سے اس بیان بازی کی بنیادی وجہ پوری دنیا میں ہونے والے کروڑوں لوگوں کے احتجاج تھے جن میں قائدانہ کردار سکول کے طلبہ نے ادا کیا۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس مسئلہ کا مستقل حل صرف ایک ہی صورت میں نکالا جا سکتا ہے جب تمام بڑی صنعتیں اور زراعت کو جدید ترین ماحول دوست ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے۔ مگر یہ صرف تب ہو سکتا ہے جب تمام بڑی صنعتیں بے ہنگم انداز میں منافع کے حصول کی بجائے انسانی ضروریات کے مطابق منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر پیداوار کریں۔ سرمایہ دار اور بڑی کارپوریشنیں کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اپنے منافعوں اور لوٹ مار سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے تمام بڑی صنعتوں اور زراعت کو سرمایہ داروں سے چھین کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلانا ہوگا۔ ایسا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ نظام کا طرز پیداوار ہی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خطرناک مسئلہ کے نہ صرف حل میں واحد رکاوٹ ہے بلکہ اس مسئلہ کے شدت اختیار کر جانے کی بھی بنیادی وجہ ہے۔ لہٰذا ماحولیاتی تبدیلیوں کے مستقل حل کیلئے ایک سوشلسٹ انقلاب کرنا ہوگا۔