|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
7 دسمبر 2019ء کو انتہائی مشکل حالات میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے لاہور میں ایک کامیاب کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جو ”مفت تعلیم“، ”روزگار سب کے لیے“ اور ”طلبہ یونین کی بحالی“ کے نعروں کے گرد تھا۔ کنونشن میں کم و بیش 200 طلباء و طالبات نے شرکت کی، جن کا تعلق پنجاب یونیورسٹی، ایف سی، یو ای ٹی، نمل یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی، پنجاب کالج اور دیگر تعلیمی اداروں سے تھا۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں سے محنت کش بھی شریک ہوئے۔ کنونشن میں دیگر شہروں سے بھی پروگریسو یوتھ الائنس کے ارکان نے شرکت کی۔ اس کنونشن کے لئے قذافی سٹیڈیم کے قریب پلاک ہال کی بکنگ کروائی گئی تھی لیکن چند گھنٹوں پہلے ہال کی بکنگ منسوخ کر دی گئی اور وجہ پوچھنے پر کہا گیا کہ ”بہت اوپر“ سے حکم آیا ہے کہ یہ کنونشن کسی صورت بھی منعقد نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود ایک کنونشن کروانے پر پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے نوجوان مبارکباد کے مستحق ہیں اور ضلعی انتظامیہ کی غنڈہ گردی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
کنونشن کا آغاز انقلابی شاعری اور نغموں سے کیا گیا۔ شرکاء نے بھرپور نعرے بازی کی اور لیبر ہال وقتاٌ فواقتاٌ کنونشن کے اختتام تک نعروں سے گونجتا رہا۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض لیڈز یونیورسٹی سے ثنااللہ اور نمل سے اقصیٰ نے سرانجام دیے۔ پہلے مقرر لاہور سے رائے اسد تھے۔ اسد نے بات کا آغاز کرتے ہوئے تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا اور کامیاب کنونشن منعقد کروانے پر لاہور کے ساتھیوں کو مبارکباد دی۔ اسد نے کہا کہ جس وقت یہ کنونشن ہو رہا ہے اس وقت پوری دنیا انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہر جگہ پر عوام اس نظام کے خلاف متحرک ہیں اور نوجوان ان تحریکوں کی اولین صفوں میں نظر آ رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی طلبہ میدانِ عمل میں اتر چکے ہیں جس کا اظہار ہمیں مختلف جگہوں پر بار بار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ انہی حالات کی پیش بینی کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس نے چار سال پہلے ”مفت تعلیم“ اور ”طلبہ یونین کی بحالی“ کا نعرہ لگایا اور یہ پیغام پاکستان کے ہر کونے تک لے کر گیا۔ آج یہ نعرہ پورے پاکستان میں گونج رہا ہے جو ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ مزید رائے اسد نے کہا کہ کنونشن کی کمپئین کے دوران ہمیں ہر جگہ پہ روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن تمام دوست ثابت قدم رہے اور آگے بھی ثابت قدمی کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ آخر میں اسد نے ہال کی بکنگ منسوخ کروانے پر حکومتی غنڈہ گردی کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ان ہتھکنڈوں سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے بلکہ ہم مزید جرات کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور طلبہ حقوق کی لڑائی جاری رکھیں گے۔
اگلے مقرر لیڈز یونیورسٹی سے مجیب بلوچ تھے۔ مجیب نے کہا کہ پاکستان میں طلبہ کو ان کے بنیادی حق یعنی یونین سازی سے دور رکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے تمام حکمران آکر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرتے ہیں اور ان کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تعلیم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نوجوان اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے منظم ہوں جس کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس کر چکا ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔
نمل یونیورسٹی سے ادریس نے اپنی یونیورسٹی اور پورے پاکستان میں طلبہ کو درپیش مسائل پر بات کی اور پروگریسو یوتھ الائنس کی جدوجہد کو سراہا۔
اس کے بعد اختر منیر اور عثمان ضیاء نے انقلابی شاعری سنائی جس پر شرکاء نے خوب داد دی۔
پنجاب یونیورسٹی سے سہیل راتھوڑ نے بتایا کہ ہمیں کمپئین کے دوران کنونشن کے دعوت نامے تقسیم کرنے سے روکا گیا اور انتقامی کاروائی کی دھمکیاں دی گئیں اور اس سے پہلے جمعیت کے غنڈوں کی طرف سے ہمارے پوسٹرز بھی پھاڑے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کو درپیش مسائل کے بارے میں بتاتے ہوئے سہیل نے کہا کہ جب کوئی ان مسائل کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پہلے بھی اس جبر کے باوجود یونیورسٹی کے طالب علموں کو منظم کر رہا ہے اور آگے بھی انتقامی کاروائیوں کی پرواہ کیے بغیر کرتا رہے گا۔
گلوبل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے وقاص نے بتایا کہ یہ الحاق شدہ ادارے کس طرح نوجوانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ 4 سال ادارے میں پیسہ اور وقت ضائع کرنے کے بعد بتایا جاتا ہے کہ یہ ادارہ الحاق شدہ نہیں تھا یا پھر جعلی ڈگریاں ہاتھوں میں تھما دی جاتی ہیں۔ ایسے بے شمار ادارے صرف لاہور میں موجود ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ وقاص نے کہا کہ اس ظلم کا خاتمہ متحد ہو کر اس نظام کے خلاف لڑ کر ہی کیا جا سکتا ہے جس کے لئے میں پی وائی اے کا رکن بنا ہوں۔
کنونشن میں گلگت بلتستان کے مشہور فنکار نیاز ہنزائی کو بھی مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے رباب بجا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد کمائی۔ کنونش میں شریک طلبہ نے اپنے روایتی رقص بھی پیش کیے جن میں پشتون، بلوچ، سندھی، گلگتی اور سرائیکی رقص شامل تھے۔ ثقافتی اعتبار سے بھی یہ کنونشن قابلِ دید تھا جس میں ہر قوم سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے ایک دوسرے کو سراہا اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
کنونشن کو آگے بڑھاتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی سے مشعل وائیں کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ مشعل نے یونیورسٹی میں طالبات کو درپیش مسائل پر بات کی۔ مشعل کا کہنا تھا کہ جنسی ہراسانی کا مسئلہ پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں موجود ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی بلکہ طالبات کو ہراساں کرنے والے درندوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہاسٹلوں میں بے شمار مسائل ہیں جن پر بات کرنا بھی جرم کے برابر ہے اور اگر کوئی بولے تو اس کو شوکاز نوٹس بھیجے جاتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس لمبے عرصے سے جنسی ہراسانی کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے اور طلباء و طالبات کو منظم کر رہا ہے تاکہ اداروں کو اس ناسور سے پاک کیا جائے۔
اس کے بعد گوجرانوالہ سے سحر وائیں نے اپنے شہر میں طالب علموں کو درپیش مسائل پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی سے قبل کالج کی سطح پر بھی طلبہ انہیں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ کالجوں میں فیسوں، ہاسٹلوں، صاف پانی، جنسی ہراسانی اور دیگر بے شمار مسائل موجود ہیں جن پر کوئی بات کرنا بھی گنوارا نہیں کرتا۔
منڈی فیض آباد سے عروج نے بتایا کہ ہمارے یہاں یونیورسٹی کی سہولت موجود نہیں ہے اور کالج کی سطح پر بھی انتہائی ناقص نظامِ تعلیم ہے۔ پڑھنے کے لیے قریبی شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جس کے لیے اچھی ٹرانسپورٹ بھی میسر نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے نوجوانوں اور خاص طور پر لڑکیوں کی کثیر تعداد تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔
ایف سی یونیورسٹی سے باسط خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد ویلفیئر ادارے میں طلبہ سے فیسوں کی مد میں لاکھوں روپے بٹورے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی طرح طرح کے جرمانے متعارف کروائے گئے جو روز طلبہ سے وصول کیے جاتے ہیں۔ ڈسپلن کمیٹیوں کے ذریعے طلبہ کو ہراساں کیا جاتا ہے اور مسائل کے خلاف آواز اٹھانے پر مکمل پابندی ہے۔ کنونشن سے پہلے ایف سی میں بھی لیف لیٹ تقسیم کرنے سے روکا گیا تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
مزید ایف سی سے حیدر علی نے ملک میں طلبہ تحریک، نظریات اور قیادت کی اہمیت پر بات کی اور کہا کہ ہمیں ابھی سے مستقبل میں اٹھنے والی تحریکوں کی تیاری کرنا ہوگی اور مارکسزم ہی وہ نظریہ ہے جس کی بنیاد پر حقیقی قیادت تیار کی جا سکتی ہے۔
کنونشن کے آخری مقرر پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی چیئر مین عمر ریاض تھے۔ عمر ریاض نے سب سے پہلے پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے ساتھیوں کو ایک کامیاب کنونشن منعقد کروانے پر مبارکباد دی اور کہا کہ تمام تر معاشی مشکلات اور ریاستی جبر کے باوجود اس کنونشن کا انعقاد اس نام نہاد جمہوری حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس نظریے کا وقت آن پہنچا ہو اسے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی اور پروگریسو یوتھ الائنس اسی نظریے پہ قائم ہے۔ اسی لیے پورے پاکستان میں مسلسل کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ عمر نے کہا کہ یہ کنونشن پروگریسو یوتھ الائنس کی مفت تعلیم، روزگار اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے سالوں سے جاری جدوجہد کا ہی ایک تسلسل ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے حوالے سے عمر ریاض نے کہا کہ سیاست پر پابندی امیروں اور حکمران طبقے کے بچوں کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف غریبوں کے بچوں کے لئے ہے کیونکہ حکمران طبقہ مزدور کے بچوں کو مزدور بنا کر ان کا استحصال کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یونیورسٹیوں میں شعور نہیں دیا جاتا بلکہ روبوٹ تیار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی وائی اے نے اپنی کمپئین کا آغاز طلبہ یونین کے نعرے سے کیا تھا اور آج یہ نعرہ مقبول ہو چکا ہے۔ یہ نظریات کی برتری ہے۔ ہم پورے پاکستان میں مارکسزم کے نظریات کے گرد نوجوانوں کو منظم کر رہے ہیں تاکہ آنے والے عرصے میں جو تحریکیں اٹھیں گی ان کو حتمی منزل تک پہنچایا جا سکے۔ آئیں اور پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھ انقلاب کی اس جدوجہد کا حصہ بنیں۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی!
آخر میں استاد ناصر خان نے موسیقی پیش کی اور انقلابی نغمے گائے۔ کنونشن کا اختتام بھرپور نعرے بازی کے ساتھ کیا گیا۔ تمام نوجوان جدوجہد کے لئے پر عزم تھے اور انہوں نے عہد کیا کہ اس پیغام کو اپنے اپنے اداروں میں لے کر جائیں گے۔
مفت تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں!
طلبہ یونین بحال کرو!