|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی نے 12 مئی تک فیسوں کی وصولی کا عندیہ دے دیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام طلبہ آن لائن طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے ہر صورت فیس جمع کروائیں بصورت دیگر ان کا نام خارج کر دیا جائے گا اور اسکا ذمہ دار طالب علم ہوگا۔ یہ نوٹیفیکیشن ایک ایسی صورتحال میں جاری کیا گیا ہے جب ایک طرف تو یونیورسٹی میں 31 مئی تک تعلیم کا سلسلہ بند ہے اور دوسرا کرونا کے باعث لوگ بے روزگار ہوئے بیٹھے ہیں اور صرف خوراک کا حصول زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے اندر پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت نچلے درمیانے طبقے سے ہے اور اس خطے کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے وقت میں جب تمام کاروبار بند پڑے ہیں، والدین کسی بھی طرح بھاری بھرکم فیسیں بھرنے سے قاصر ہیں، فیسوں کی مانگ کرنا دوسرے الفاظ میں بھتہ مانگنا ہے۔ اسی طرح دیر سے فیس ادا کرنے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں گے اور بڑے پیمانے پر مال بٹورا جائے گا۔ دوسری صورت میں کئی طلبہ کے لیے تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک پچھلے سمیسٹرز کے امتحانات بھی ہونے باقی ہیں اور جن کے ہو گئے ان کا رزلٹ آنا باقی ہے، تو طلبہ کیوں کر اگلی کلاسوں کی فیسیں بھریں؟
وہیں اس نوٹیفیکیشن کے اندر یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک فیسیں وصول نہیں ہوتیں، عارضی اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دی جائیں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سراسر غنڈہ گردی اور حق تلفی ہے کیونکہ صرف احساس پروگرام کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے 55 لاکھ سے ذائد رقم چندے کی مد میں حکمرانوں کی جیبوں میں ڈالی ہے۔ ہم سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ طلبہ کی فیسوں کی رقم طلبہ پہ خرچ کرنے کی بجائے کہیں اور کیوں خرچ کی گئی؟
ہم آن لائن کلاسز کے آغاز سے ہی کہہ رہے تھے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف فیسیں بٹورنا ہے اور اس کا عملی اظہار آج سب کے سامنے موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جب تک کرونا موجود ہے، فیسوں کی وصولی روکی جائے اور نہ صرف فیس وصولی کا اعلان فی الفور واپس لیا جائے بلکہ تمام فیسیں معاف کی جائیں اور اس کے ساتھ ہی یکم جون سے جو آن لائن کلاسز کا آغاز کیا جا رہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو تمام تر سہولیات جیسے کہ معیاری انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ مفت فراہم کیے جائیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضروریات کو پورا کرے اور اگر ریاست ایسا نہیں کرتی اس کا واضح مطلب ہوگا ریاست طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہی ہے اور خود طلبہ پہ تعلیم کے دروازے بند کرنا چاہ رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ اب جڑت بنائیں اور اس ظلم و زیادتی کے خلاف لڑیں ورنہ مستقبل میں ہزاروں ایسے طلبہ ہوں گے جن کا تعلیم کا سفر ختم ہوجائے گا اور ہم میں سے ہزاروں یونیورسٹی کا منہ دوبارہ نہ دیکھ سکیں گے۔ اس لیے آج متحد ہوکے آن لائن کلاسوں کا اس وقت تک بائیکاٹ کرنا ہوگا جب تک طلبہ کے بنیادی ترین مطالبات نہیں مان لیے جاتے۔ طلبہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ تمام تعلیمی ادارے ان کے پیسوں سے چلتے ہیں اور ان ہی کی ملکیت ہیں اور جب تک طلبہ نہیں چاہیں گے یونیورسٹی انتظامیہ کچھ نہیں کرسکتی۔
فیس وصولی نامنظور!
بغیر وسائل کے آن لائن کلاسیں نامنظور!
طلبہ اتحاد زندہ باد!