حیدرآباد: کتاب، ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ کی تقریب رونمائی کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدر آباد|

23 نومبر 2019 بروز ہفتہ، حیدرآباد پریس کلب ہال میں روس انقلاب (1917) کی 102ویں سالگرہ کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے، کتاب ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انصار شام نے سر انجام دئیے۔ انصار شام نے سب سے پہلے وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن کے مرکزی صدر سرمد سیال کو بات کرنے کیلئے سٹیج پر مدعو کیا۔ سرمد نے نوجوانوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے روس انقلاب پر مختصر بات کی۔ انکا کہنا تھا کہ مارکس کے مطابق انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ سرمد نے روس انقلاب میں محنت کش طبقے کے کردار پر روشنی ڈالی۔

اس کے بعد علی عیسیٰ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ روس انقلاب پر ان سامراجی قوتوں نے خود اور اپنے دلال دانشوروں، این جی اوز اور میڈیا وغیرہ کی ذریعے بے تحاشہ پروپیگنڈہ کرایا یہاں تک کہ طبقات، انقلاب اور تاریخ ختم ہونے، جیسے جملوں کے ذریعے مارکسزم کو مسخ کرکے اس کو ناکام کرار دینے کی کوشش کی گئی۔ مگر آج سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کے سبب یہ سب پروپیگنڈہ نوجوانوں کے سامنے واضح ہوگیا ہے اور وہ اس نئے عہد میں حقیقی نظریات سے آشنا ہوکر انقلابی جذبوں کے ساتھ علم بغاوت بلند کر رہے ہیں۔

اس کے بعد کتاب کی رونمائی کی گئی۔

اسکے بعد امر فیاض نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کامریڈ لینن نے اپنی کتاب ریاست اور انقلاب کی شروعات میں لکھا ہے کہ کسی نظریے کو مختلف طریقوں سے مسخ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر انقلابی نظریات کی لفاظی کرتے ہوئے اسکے انقلابی جوہر کو ختم کر دیا جاتا ہے اور انہیں بس کتابی باتوں تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج این جی اوز مالکان نوجوانوں کے ذریعے انقلابی یا سماجوادی نعرے لگوا کر پس پردہ انہیں رد انقلابی نظریات پڑھا رہے ہیں اور کیریر کی غلاظت میں دھنسا رہے ہیں۔ واضح رہے ہم ان نوجوانوں کے نعروں کو اپنے نعرے سمجھتے ہیں اور ان تک حقیقی نظریات پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یہ کتاب اسی کی ایک شروعاتی کڑی ہے، یہ حرف آخر نہیں بلکہ بحث کی شروعات ہے۔

اس کے بعد سماجی و سیاسی کارکن ہریش کمار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے اس تصنیف پر میں پارس جان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک انتہائی ضروری بحث کا آغاز کیا ہے۔ یہ نظام فرسودہ ہو چکا ہے اور اس کو بچانے کے لیے یہ مختلف نظریات کا سہارا لے رہے ہیں جن میں سر فہرست لبرل ازم کا نظریہ ہے، جس میں ”فری مارکیٹ“ یعنی آزاد منڈی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ محنت کش طبقے کا استحصال کیا جائے۔

اس کے بعد پورھیت مزاحمت کے رہنما مسرور شاھ نے پارس جان اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ لبرل ازم اس سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ ہے جو اس نظام کے ساتھ فرسودہ ہو چکا ہے۔ لہٰذا ہمیں روس انقلاب، جو ایک جدید اور انقلابی نظریہ ورثے میں دے کر گیا ہے، پر عمل کر کے ایک حقیقی اور انسان دوست نظام قائم کریں۔

آخر میں کتاب کے مصنف پارس جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب کوئی آخری تصنیف نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ بحث کے آغاز کرنے کی ابتدائی کوشش ہے۔ کچھ دن پہلے ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں نوجوان انقلابی نعرہ لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں (واضح رہے ان نوجوانوں کے نعروں کو ہم اپنے نعرے سمجھتے ہیں)۔ اسی جگہ کچھ این جی اوز مالکان وڈیو بناتے ہوئے بھی نظر آئے جو ہمارے ان نعروں کو اپنے آقاوں کے پاس فروخت کرتے ہوئے ان نوجوانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ دوسرے ہی دن ان نام نہاد انقلابی صاحب کی وڈیو منظر پر آتی ہے جس میں صاحب کہتے ہے کہ سوشلزم 18ویں، 19ویں صدی کا نظریہ ہے ہمیں اب کچھ نیا نظریہ یعنی کوئی ملا جلا نظریہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ان صاحب کی ان باتوں سے انکے نظریات کی حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔

اختتام پر شیراز اور برکت نے انقلابی شاعری پڑھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.