ملتان: ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“، تقریب رونمائی کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

21 نومبر بروز جمعرات، پریس کلب ملتان میں پرو گریسو یوتھ الائنس اور ریڈورکرز فرنٹ کے زیرِ اہتمام انقلابِ روس کی 102 ویں سالگرہ کے موقع پر کتاب ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد ہوا، جس میں مصنف پارس جان، پروفیسر محبوب تابش اور پروفیسر خالد سعید نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

پروگرام میں 100 سے زیادہ طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی۔

اس تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض وقاص نے ادا کیے۔ آغاز میں وقاص نے اس تقریب کا مقصد بیان کیا اور انقلابِ روس پہ روشنی ڈالی۔ اس کے بعد فرحان رشید نے پروگریسو یوتھ الائنس اور عاصمہ نے ریڈ ورکرز فرنٹ کا تعارف کروایا۔ اس کے بعد وقاص نے مصنف پارس جان کو گفتگو کیلئے دعوت دی۔

پارس نے بات کا آغاز عالمی سرمایہ داری کے بحران سے کیا کہ سرمایہ داری کو ابدی کہنے والے آج بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ آج سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ویل فیئر ریاست کا تصور خواب بن چکا ہے۔ اس وقت پہلی دنیا کے ممالک میں سوشلزم کی حمایت میں اُبھار سرمایہ داری کی ناکامی کا واضح اظہار ہے۔ ایک دفعہ پھر سے چوکوں، چوراہوں، ورکشاپوں اور یونیورسٹیوں میں دوبارہ نظریات کی بحثیں اُبھرنا شروع ہوگئی ہیں۔ عہد مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور عوام سبھی لبرل ابہامات اور ریاستی ڈھانچوں پہ کلئیر ہورہے ہیں۔ ساری دنیا میں تحریکوں کا اُبھار ہورہا ہے وہیں باہر سے آئے دانشور اور این جی اوز بھی کھل کر اپنا دھندہ کررہے ہیں، جو بظاہر خود کو سوشلسٹ کہلواتے ہیں مگر وہ محنت کش طبقے کی سبھی تحریکوں کو بیچنے اور موجودہ سٹرکچر کو قائم رکھنے کے آلہ کار ہیں۔ پارس کا کہنا تھا کہ اس وقت لبرل نظریات رجعتی نظریات بن چکے ہیں۔ اس کے دو بنیادی ستون فلسفہ اور معیشت انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اب واضح طور پر جدید نظریات یعنی مارکسی نظریات ہی انسانیت کو مستقبل کا بہتر حل پیش کرسکتے ہیں۔

پارس کی گفتگو کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلبہ کی جانب سے فلسفے، معیشت اور سیاست کے حوالے سے نہایت ہی اہم سوالات کیے گئے۔

اس دوران بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے طالبعلم ذیشان خان نے انقلابی شاعری سنائی۔

اس کے بعد دوسرے مقرر محبوب تابش کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ محبوب تابش کا کہنا تھا موجودہ عہد میں آرٹ، سائنس اور فلسفہ سب سرمایہ دارانہ استحصال کے آلہ بن چکے ہیں۔ مزید محبوب تابش کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا اور عوام کی جہالت اور مذہبی شدت پسندی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔مزید سوشلزم پہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سوشلزم نے حقیقی معنوں میں قومی مسئلہ حل نہیں کیا جس کا اظہار سویت یونین کے انہدام میں بھی نظر آیا۔

محبوب تابش کے بعد پروفیسر خالد سعید کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی طاقت کے دو خاص آلہ کار ہیں ایک فوج اور دوسرا مذہب۔ موجودہ عہد کو نیو ”ڈارک ایجز“ قراردیا۔ اس کے ساتھ خالد سعید نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں ”طبقات“ کی ازسر نو تشریح کرنا پڑے گی۔ مزید خالد سعید کا کہنا تھا کہ غیر طبقاتی سماج ایک خواب ہے جس کیلئے جدوجہد ضروری ہے مگر انسان چونکہ فطرتاً جابر اور خودغرض ہے اس لیے اس کے قیام کے امکانات مخدوش ہیں۔

اس کے بعد پارس جان نے سوالات کے جواب دیے۔ وقت کی کمی کے باعث تمام سوالات کے جواب تو نہیں دیے جا سکے مگر اکثریت کے جواب دیے گئے۔

نوٹ: پروگرام کی وڈیوز ہمارے یوٹیوب چینل پر موجود ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.