رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس کوئٹہ (بلوچستان)
پچھلے دو دنوں (7 اور 8 جولائی) سے بولان میڈیکل کالج کے طلباء اپنے مطالبات کیلئے احتجاج پر ہیں۔ اس احتجاج کا آغاز بولان میڈیکل کالج سے ہوا جہاں سے طلباء نے ریلی کی شکل میں کوئٹہ پریس کلب تک مارچ کیا۔ احتجاجی ریلی میں سینکڑوں طلبہ نے شرکت کی جس میں فرسٹ ائیر سے لے کر فائنل ائیر تک کے تمام طلباء شامل تھے۔
احتجاجی ریلی میں مظاہرین نے شدید نعرے بازی کی اور اسکے ساتھ ساتھ بولان میڈکل کالج کی نااہل انتظامیہ کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں مختلف بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ احتجاجی ریلی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آکر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگئی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہمارے مطالبات کے حل تک ہم پرامن جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی آرگنائزر ولی خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہ صرف بولان میڈیکل کالج کے طلباء کیساتھ جدوجہد میں ساتھ دینگے، بلکہ صوبے اور ملک بھر تک کے طلباء کے جائز مطالبات اور حقوق کے لئے ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہینگے اور ہم موقع پرستی اور مفاد پرستی کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے انتہائی سنجیدہ بنیادوں پر طلبہ کے جائز حقوق اور مطالبات کے لئے ہر جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہینگے۔
اسی طرح 7 جولائی کی شام کو طلبہ نے کالج کے احاطے کے اندر احتجاجی کیمپ لگا کر دھرنا شروع کر دیا۔
یہ دھرنا آج دوسرے روز بھی جاری ہے۔ احتجاجی دھرنے میں بولان میڈیکل کالج کے فرسٹ ائیر سے لے کر فائنل ائیر تک اور ہاؤس آفیسرز سب شرکت کر رہے ہیں۔ اس احتجاجی دھرنے کے مطالبات وہی ہیں جن کا اظہار بولان میڈیکل کالج کے طلباء نے کل کے احتجاجی مظاہرے میں کیا تھا (مطالبات نیچے دیے گئے ہیں)۔ احتجاجی کیمپ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کے وفد نے بھی احتجاجی کیمپ میں شرکت کی۔ احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کامریڈ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ ہم بولان میڈیکل کالج کے طلباء کے اس احتجاج کو نہ صرف یہ کہ سراہتے ہیں بلکہ ان کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی خوف کے انتہائی جراتمندی کیساتھ اپنے جائز مطالبات کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ ہم پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے اس احتجاج کو نہ صرف سپورٹ کرتے ہیں بلکہ ان کا حصہ ہوتے ہوئے ہراول دستے کا کردار ادا کرینگے۔ انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ اس احتجاجی کیمپ کے جتنے بھی مطالبات ہیں ان مطالبات کے ساتھ طلبہ کے دیگر مسائل کو بھی جوڑا جائے، جس میں لائبریریوں پر حملہ، ہاسٹل کے مسائل، انتظامیہ کی غنڈہ گردی اور دیگر بنیادی مسائل شامل ہیں۔ ان مطالبات کے ذریعے خاص طور پر پورے صوبے اور پورے ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء کو بھی اکٹھا کیا جا سکتا ہے جن کو انہی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کے اندر طلبا کو فیل کیا جانا آجکل ایک معمول بن چکا ہے۔ چونکہ حکومت پاکستان کی جانب سے تعلیمی بجٹ انتہائی کم ہے لہذا اس وجہ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور یہ تعلیمی ادارے طلبہ کی ناجائز فیسوں کے ذریعے اپنے مالی بحران کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی اداروں میں پروفیسر مافیا ایک گینگ کی صورت میں بیٹھی ہوئی ہے۔
پروفیسر مافیا اور انتظامیہ کی غنڈہ گردی کی وجہ سے طلبا میں خودکشی جیسے رجحانات بڑھنا شروع ہوگئے ہیں جس کی حالیہ مثال این ایف سی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ملتان کے ایک طالب علم مزمل مقصود کی ہے جس نے غنڈہ نما پروفیسروں کی پروفیسر گردی سے تنگ آ کر چند روز قبل خود کشی کر لی۔ جبکہ اس کے علاوہ مزید ایسے بے شمار واقعات آئے روز ہوتے ہیں جو متعدد وجوہات کی بنا پر منظر عام پر نہیں آپاتے۔
اسی طرح بولان میڈیکل کالج کے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ کالج انتظامیہ نے 24 گھنٹے کے اندر ہاسٹل خالی کرنے کا نوٹیفکیشن شائع کیا تھا اور نہ خالی کی صورت میں دھمکی دی تھی کہ اسے زبردستی خالی کرایا جائے گا۔ یہ غریب طلبا کیساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ وہ بہت دور دراز علاقعوں سے یہاں پڑھنے آئے ہیں اور بار بار گھر آنے جانے کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح کالج انتظامیہ نے پرنسپل کی سربراہی میں آرمی کے کمانڈنٹ کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے بلوچستان کانسٹیبلری، پولیس اور فرنٹیئر کور کی فورسز کو نااہل قرار دیتے ہوئے کمانڈنٹ چیف سے آرمی کو کالج کی سیکورٹی پر تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔
مطالبات
1۔ بولان میڈیکل کالج کے پرنسپل کو فی الفور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگا کیونکہ بولان میڈیکل کالج کے اندر طلباء جتنے بھی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ان کی وجہ بنیادی طور پر پرنسپل ہے۔
2۔ MBBS اور BDS کے مختلف بیجز کے حالیہ امتحانات کے رزلٹ کو مسترد کرتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ انکوائری کمیٹی کے ذریعے ان نتائج کا جائزہ لیا جائے کہ 180 طلباء میں سے 157 طلبا کو فیل کرنے کی وجہ کیا ہے۔ اور پھر جن طلبہ کو پہلے سے ہی سپلی دی گئی تھی ان کو پھر سالانہ امتحان کیلئے فیل کر کے ان کا ایک قیمتی سال ضائع کرنے کی کیا وجہ ہے۔
3۔ بولان میڈیکل کالج کے اندر ایجوکیشنل بورڈ جوکہ غیر فعال ہے ان کو فعال کیا جائے۔ تاکہ طلباء کو غیر ضروری مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ ایجوکیشنل بورڈ کالج کی تمام تعلیمی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت امتحانات کا انعقاد کرواتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس بولان میڈیکل کالج کے طلبا کے ان تمام مطالبات کو درست سمجھتی ہے اور انکی ہر حوالے سے بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ طلبا سے اس جدوجہد کو دیگر تعلیمی اداروں تک پھیلا کر اس لڑائی کو طلبہ کے ملک گیر اتحاد کی صورت میں لڑنے کی اپیل بھی کرتی ہے۔ یہی درست طریقہ ہے ان حکمرانوں سے اپنا حق لینے کا۔