الزام: ”سوشلزم غیر جمہوری ہے“ کا جواب

|تحریر: پارس جان|


]یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔[

یہ اعتراض بہت ہی عملیت پسندانہ ہے۔ اس کے لیے دلیل کے طور پر سوویت یونین کا افسر شاہانہ ریاستی ماڈل پیش کیا جاتا ہے اور مارکس اور لینن کے نظریات کی روشنی میں دیے گئے سوشلسٹ ریاست کے ماڈل کو یکسر نظرا نداز کر دیا جاتا ہے۔ یعنی سوشلزم کو ایک پارٹی کے یا ایک فرد یا گروہ کے آمرانہ یا افسر شاہانہ اقتدار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اس اعتراض کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نقطہِ نظر کے مطابق سوشلزم اگر جمہوری نہیں ہے تو پھر وہ سوشلزم ہے ہی نہیں۔ عظیم مارکسی استاد لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’سوشلزم کو جمہوریت کی بالکل ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ جسم کو آکسیجن کی“۔ اسی لیے ٹراٹسکی نے 1936ء میں ہی ’انقلاب سے غداری‘ نامی کتاب میں سوویت افسر شاہی کی غلط اور آمرانہ پالیسیوں کے باعث سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق کیا تھا، جو نصف صدی بعد من و عن درست ثابت ہوا۔ لیکن دوسری طرف لبرلز اور انارکسٹوں کی سوویت بیورو کریسی پر تنقید اپنے تئیں انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ انارکسٹوں کے خیال میں ریاست کی ہر شکل ہی جابرانہ ہے، بھلے وہ مزدور ریاست ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے کے بعد سماج کو عوام کی خود روی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس دلیل کا تاریخی حقائق بیسیوں بار منہ چڑا چکے ہیں۔ 1920ء کی دہائی کے جرمنی اور چین کے انقلابات اور 1930ء کے سپین کے طویل انقلاب سے لے کر عرب بہار اور حال ہی میں سوڈان اور سری لنکا کے انقلابات انارکزم کے دلائل کو مسترد کرتے ہیں۔ دوم لبرلز جمہوریت کو ایک نظام بنا کر پیش کرتے ہیں حالانکہ جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا ایک طریقہ ہے اور جب بحرانات کے باعث یہ طریقہ کارگر نہ رہے تو پھر سرمائے کی ننگی آمریت مسلط کر دی جاتی ہے۔ ہر عہد میں پیداواری تعلقات کے ارتقا کے ساتھ ساتھ جمہوریت کا تصور بھی بتدریج فروغ پاتا رہا ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس کا پوٹینشل محض امکانی ہی رہتا ہے، اسے سرمائے کی آمریت سے آزاد کر کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔
سوشلسٹ جمہوریت کا جائزہ لینے سے پہلے سرمایہ دارانہ جمہوریت کا پوسٹ مارٹم بہت ضروری ہے۔ نئی نسل سے اب اس نظام کی منافقانہ جمہوریت کا حقیقی چہرہ چھپانا ممکن نہیں رہا۔ بظاہر عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتیں دراصل بڑی بڑی کمپنیوں اور اجارہ داریوں کے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہی سامراجی ادارے ان کے انتخابات میں اربوں، کھربوں کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پھر اس پر کئی گنا منافع بٹورتے ہیں۔ انتخابات میں مدِ مقابل زیادہ تر پارٹیاں عام طور پر دو فیصد اشرافیہ کی ہی نمائندہ پارٹیاں ہوتی ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی دم چھلہ ہوتی ہیں۔ حکومت چاہے کسی بھی پارٹی کی ہو، ایک ہی طبقہ حکومت کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ برسرِ اقتدار پارٹی جس دھڑے یا گروہ کی ترجمان ہوتی ہے، اسے حزبِ اختلافی دھڑے کی نسبت محنت کش عوام کا خون چوسنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ یوں سارے سرمایہ دار جو بظاہر مذہبی، سیکولر، قوم پرست یا محبِ وطن پارٹیوں میں منقسم ہوتے ہیں بڑے منظم انداز میں باری باری عوام کے خون پسینے سے اپنا حصہ وصولتے رہتے ہیں۔ لینن کے بقول سرمایہ دارانہ نظام میں نام نہاد منتخب حکومتیں دراصل حکمران طبقے کی انتظامی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ اب تو یہ سارا سیاسی گورکھ دھندا سیدھی سیدھی تجارت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پارٹیاں اپنے ٹکٹ فروخت کرتی ہیں اور پارلیمان کے ممبران اپنے ووٹوں کی منہ بولی قیمت لگاتے ہیں۔ لیکن جب بھوک اور افلاس کے مارے عوام اپنا ووٹ ایک وقت کے کھانے کے عوض فروخت کر دیتے ہیں تو یہی لبرل صاحبان ان کو جہالت کے طعنے دیتے ہیں اور اپنی کسمپرسی کا خود عوام کو ہی ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں عوام کو محض ووٹ دینے کی ہی آزادی ہو، ووٹ لینے یعنی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کا وہ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں، ایسا طرزِ عمل تعجب یا حقارت کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ابھی حال ہی میں ایک آڈیو لیک میں سامنے آیا کہ ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا بیٹا تحریکِ انصاف کا ٹکٹ ایک کروڑ بیس لاکھ میں فروخت کر رہا تھا۔ اب یہ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ برطانیہ میں ایک سال میں تین وزرائے اعظم کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ اب اس نام نہاد جمہوریت کے دن گنے جا چکے ہیں۔
انقلاب کے بعد مزدور ریاست ایک ریڈی میڈ سوشلسٹ جمہوریت اوپر سے مسلط نہیں کرتی بلکہ انقلابی بحران کے دنوں کے ’دوہرے اقتدار‘میں اس کی کونپلیں سماج کے رگ و ریشے سے پھوٹتی ہیں، جنہیں عرفِ عام میں ہڑتالی کمیٹیاں اور زیادہ ترقی یافتہ شکل میں سوویتیں کہا جاتا ہے۔ انقلاب کی فیصلہ کن فتح کے بعد دوہرے اقتدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اقتدار مکمل طور پر سوویتوں کو منتقل ہو جاتا ہے اور پھر انہی سوویتوں کی خام اشکال کو دیہاتوں، دفاتر، فیکٹریوں اور ضلعی و صوبائی سطح سے لے کر ایک مرکزی سوویت کانگریس تک منظم کیا جاتا ہے اور یوں ایک مزدور ریاست جنم لیتی ہے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی میکانکی تقسیم کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور منتخب نمائندوں کو تمام انتظامی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ کسی منتخب نمائندے یا انتظامی سربراہ کی تنخواہ ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوتی اور ان کی کوئی خاص مدت ملازمت وغیرہ نہیں ہوتی اور کسی بھی وقت متعلقہ سوویت کے اکثریتی ووٹ کی بنا پر واپس بلایا جا سکتا ہے اور سوویتوں کے انتخابات کا انعقاد اور وقت وغیرہ کا تعین بھی متعلقہ سوویتیں خود کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں آبادی کی بنا پر محلے وغیرہ کی سوویتیں اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں شہروں میں صنعتوں کی بنیاد پر اسی طرح انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر یہ علاقائی سوویتیں ضلعی کمیٹیوں کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتی ہیں۔ سوویتوں کی ضلعی کانگریس اپنے انتظامی سربراہان کا انتخاب کرتی ہیں۔ اسی طرح مرکزی سوویت کانگریس کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کا سال میں دو بار اجلاس منعقد کرنا مرکزی انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے مرکزی سوویت منتخب کرتی ہے اور اس کے ممبران کو بھی کسی بھی وقت علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی تمام باقیات کا صفایا کر دیا جاتا ہے لہٰذا پیشہ ور جج صاحبان اور ماہرینِ قوانین وغیرہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ ججوں کا انتخاب سوویتوں میں کیا جاتا ہے اور فریقین کو براہِ راست اپنا مقدمہ لڑنے کی اجازت ہوتی ہے مگر وہ اپنے نمائندگان بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ ہمارے سماج میں چونکہ ابھی تک قبائلی نظام کی باقیات موجود ہیں، اسی لیے پنچایتی نظام بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سوشلزم میں ملکیتی رشتوں کے یکسر بدل جانے کے باعث اسی پنچایتی نظام کو ایک زیادہ جدید اور موثر شکل میں قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ منتخب جج صاحبان کی تنخواہ بھی ہنر مند مزدوروں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ایک باقاعدہ، مستقل اور پیشہ ور فوج کا موجودہ شکل میں بالکل خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ ’دوہرے اقتدار‘ کے دنوں میں فوج میں ہونے والی بغاوتوں کے نتیجے میں بننے والی انقلابی کمیٹیوں سے شروع کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی ایک نئی سرخ فوج تعمیر کی جاتی ہے جس کے افسران کا سپاہیوں کی کمیٹیوں کے ذریعے جمہوری طور پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہر شہری کو کسی نہ کسی سطح کی فوجی ٹریننگ دی جاتی ہے اور مزدوروں اور چھوٹے کسانوں پر مشتمل عوامی ملیشیا بھی تخلیق کی جاتی ہے جو مزدور ریاست کے دفاع کے لیے سرخ فوج کی نرسری کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ سابقہ استحصالی طبقات کے علاوہ 16 سال سے 40 سال تک کی عمر کے ہر شہری کو فوجی خدمات سر انجام دینے اور رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ کھلے عام انقلاب کے باغیوں کے علاوہ ہر کسی کو اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کا حق ہوتا ہے۔ یہ مزدور ریاست انسانی تاریخ کی ایک منفرد ترین ریاست ہوتی ہے جو اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی اپنے ہی خاتمے کی جدوجہد شروع کر دیتی ہے اور اختیارات کی گراس روٹ لیول تک عملی منتقلی کی رفتار کا دارومدار پیداواری قوتوں کی ترقی، فیصلہ سازی میں عوامی شمولیت اور عالمی انقلاب کی پیش رفت پر ہوتا ہے۔ تاہم اس عبوری دور میں مزدور ریاست جہاں بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی ہے وہیں سرمایہ دارانہ نظام کی باقیات کے از سرِ نو منظم ہونے کی ہر کوشش کو ناکام بنانا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے۔ یوں اگر جمہوریت سے مراد فیصلہ سازی میں عوام کی شمولیت ہے تو اس کی تکمیل صرف اور صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.