الزام: ”سوشلزم ناکام ہو چکا ہے“ کا جواب

|تحریر: پارس جان|


[یہ اقتباس سہ ماہی میگزین لال سلام کے شمارے گرما 2023ء میں شائع ہونے والے کامریڈ پارس جان کے ایک آرٹیکل بعنوان ”سوشلزم پر لگائے جانے والے 10 الزام اور ان کے جواب“ سے لیا گیا ہے۔ مکمل آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔]

سوویت یونین کے انہدام کو اب تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی اسے سوشلز م کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ دیکھیں جی سوشلزم کا تجربہ تو ناکام ہو چکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ روزمرہ کے معمولات، علمی، منطقی اور نظریاتی میدان میں چونکہ سوشلزم پر سرمایہ داری کی سبقت ثابت کرنا ممکن ہی نہیں رہا لہٰذا سوویت یونین کے انہدام کی لکیر پیٹنے کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے۔
سچ کہیے تو سرمایہ دارانہ نظام کے سنجیدہ ماہرین اور معذرت خواہان خود بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام سے خطرہ وقتی طور پر ٹلا ضرور تھا مگر سرمایہ دارانہ تضادات آج پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے سر اٹھا رہے ہیں اور سوشلزم کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا ابھی تک کوئی دوسرا طریقہ یا متبادل منظرِ عام پر نہیں لایا جا سکا۔ رواں برس 8، 7 فروری کو امریکی کانگریس میں سوشلزم کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی۔
آخر اس قرارداد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اگر سوشلزم واقعی ناکام ہو چکا ہے تو اس کو اتنے اہم پلیٹ فارم پر زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر مارکسزم مر چکا ہے تو پھر اس کا اتنا خوف کیوں؟ ظاہر ہے کہ سامراجی ادارے اور ریاستیں تاریخی افق پر پھر سوشلزم کی چاپ سن رہے ہیں اور اس کی پیش رفت سے ان کے ایوان لرزنا شروع ہو چکے ہیں۔
آئیے اب اس اعتراض کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ اول تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ’ناکامی‘ لفظ کے اصل مفہوم کے مطابق سوویت یونین کے تجربے کو ناکام کہا ہی نہیں جا سکتا۔ اس تخمینے کے لیے آئیے ایک دلچسپ پیمانہ تخلیق کرتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1917ء سے لے کر 1989ء تک کے 72 سالوں کے دورانیے میں ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سوویت یونین نے جو اور جتنی حاصلات جیتیں، اگر روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا نہ ہوا ہوتا تو کیا اسی عرصے میں روس اس سے زیادہ حاصلات جیت پاتا؟
یہ درست ہے کہ تاریخی سفر میں اس طرح کا موازنہ عجیب لگتا ہے مگر اس کا ایک بہت آسان حل یہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ اسی دورانیے میں سرمایہ دارانہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کی جو حاصلات رہیں کیا مقداری اور معیاری حوالے سے وہ سوویت یونین سے زیادہ تھیں یا کم؟ اس ضمن میں ایک تو ہم اسی مثال کو دوہرائیں گے جو ہم اس مضمون میں پہلے بھی کہیں دے چکے ہیں یعنی انقلاب کے بعد کے 50 سالوں میں سوویت یونین کے صنعتی آؤٹ پٹ میں 52 گنا اضافہ ہوا جبکہ اسی دورنیے میں امریکہ کے صنعتی آؤٹ پٹ میں 6 گنا اور برطانیہ میں 2 گنا اضافہ ہوا۔ سوویت یونین میں محنت کی پیداواریت میں 1310 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیے میں امریکہ اور برطانیہ میں یہ اضافہ بالترتیب 332 فیصد اور 73 فیصد رہا۔
نیز 1917ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اوسط عمر (Life Expectancy) مردوں میں 48.4 سال تھی اور عورتوں میں 54 سال تھی، جو 1989ء میں مردوں اور عورتوں میں بالترتیب 71.7 اور 78.5 سال ہو گئی۔ برطانیہ میں 1920ء میں اوسط عمر 48.8 سال سے 1990ء میں بڑھ کر 75.14 سال ہو گئی۔ جبکہ روس میں 1920ء میں اوسط عمر صرف 25.8 فیصد تھی جو 1990ء میں بڑھ کر 69.13 سال ہو گئی۔ اس میدان میں بھی ترقی کی شرح سوویت یونین میں امریکہ اور برطانیہ سے کہیں زیادہ رہی۔ خواندگی کی شرح میں اضافے کے موازنے میں بھی سوویت یونین امریکہ اور دیگر سرمایہ دارانہ ممالک سے کہیں آگے رہا۔ سوویت یونین میں آبادی میں 15 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکنیشنز کی تعداد میں 55 گنا اضافہ ہوا۔
ہر ایک لاکھ افراد کے لیے سوویت یونین میں انہدام کے وقت ڈاکٹروں کی تعداد 205 تھی جبکہ اس وقت اٹلی اور آسٹریا میں یہ تعداد 170، امریکہ میں 150، مغربی جرمنی میں 144، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں 110 اور سویڈن میں ایک لاکھ افراد کے لیے 101 ڈاکٹر تھے۔ سیٹیلائٹ اور نیوکلیر ٹیکنالوجی اور ثقافتی میدان میں بھی سوویت یونین کسی سے کم نہیں تھا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے دور میں روس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے سرمایہ دارانہ نظام میں یا زارِ روس کے تحت اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان بنیادوں پر روس میں منصوبہ بند معیشت کے تجربے کو ناکامی قرار دینا سراسر بد دیانتی اور تعصب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام حاصلات کے باوجود سابقہ سوویت یونین میں ریاست کی جو شکل تھی وہ سوشلزم ہرگز نہیں تھا۔ صرف منصوبہ بند معیشت کو سوشلزم نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ ہم اسی مضمون میں پہلے وضاحت کر چکے ہیں کہ سوشلزم اپنی سرشت میں جمہوری ہوتا ہے اور فیصلہ سازی میں مزدور طبقے کی شعوری مداخلت سوشلزم کا لازمی عنصر ہے۔ مزید برآں 1917ء کے پسماندہ روس میں سوشلسٹ انقلاب تو برپا ہو چکا تھا مگر سوشلزم کی تعمیر کے لیے روسی پرولتاریہ کو مغربی یورپ کے جدید ممالک کے پرولتاریہ کی معاشی، تکنیکی اور سیاسی کمک درکار تھی۔
لینن اور ٹراٹسکی نے کبھی بھی کسی ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کا تصور پیش نہیں کیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ عالمی تقسیمِ محنت اور سامراجیت کے مظہر کے باعث ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ جب سرمایہ داری قومی حدود سے تجاوز کر چکی ہے تو اس سے بھی جدید نظام یعنی سوشلزم کو ایک ملک تک محدود کر کے زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے پسماندہ روس میں جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ جانتے تھے کہ اس کی تکمیل بین الاقوامی انقلاب کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقلاب کے بعد قحط، جنگ اور خانہ جنگی کے انتہائی دشوار حالات کے باوجود دنیا بھر کے انقلابیوں کو سوویت یونین میں جمع کیا اور تیسری انٹرنیشل تنظیم یعنی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی اور لینن کی زندگی میں اس انٹرنیشنل کی سالانہ کانگریس پانچ سال تک باقاعدگی سے منعقد ہوتی رہی۔
لینن اور ٹراٹسکی جرمنی اور دیگر ممالک میں بھی انقلاب کا تناظر بنا کر سوویت یونین کے انقلاب کو کسی بھی صورت میں اس وقت تک قائم رکھنا چاہتے تھے جب تک انقلاب عالمی سطح پر تیزی سے پھیل نہیں جاتا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقلاب کے بعد روس کا نام تبدیل کر کے یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک رکھا، یعنی یہ صرف روس کے مزدوروں کا انقلاب نہیں تھا بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کا انقلاب تھا اور جس جس ملک میں بھی انقلاب آگے بڑھتا وہ ممالک اس یو ایس ایس آر (USSR) کا حصہ بنتے چلے جاتے اور پھر عالمی انقلاب کے بعد مزدور ریاست کا وجود بھی ناپید ہو جاتا۔ اسے مارکس نے کمیونزم کا دوسرا یا اونچا مرحلہ قرار دیا تھا۔
لینن کا تناظر تو ٹھیک ثابت ہوا مگر بدقسمتی سے قیادت کے فقدان یا غلط پالیسیوں کے باعث جرمنی، اٹلی اور دیگر ممالک کے انقلابات کامیاب نہیں ہو سکے اور روس کا انقلاب اپنی پسماندگی کی زنجیروں میں مقید ہو کر تنہائی کا شکار ہو گیا۔
انہی مخصوص معروضی حالات نے انقلاب کی پسپائی اور افسر شاہی کے ابھار کی راہ ہموار کی۔ سوویت یونین میں یہ افسر شاہانہ ردِ انقلاب لینن کی وفات سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا۔ لینن نے اپنے تئیں اس کے خلاف مزاحمت بھی کی مگر اپنی بیماری اور معذوری کے باعث وہ اس میں فعال کردار ادا نہیں کر سکا۔ اپنے مخصوص سیاسی و ثقافتی پس منظر کے باعث جوزف سٹالن نے اس افسر شاہانہ ردِ انقلاب کی قیادت کی، اسی لیے سوویت افسر شاہی کے سیاسی ماڈل کو سٹالنزم کا نام دیا جاتا ہے۔
لینن کی موت کے بعد لیون ٹراٹسکی اور اس کے کامریڈز نے اس افسر شاہانہ ردِ انقلاب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر تاریخی اور معروضی محرکات ان کے حق میں نہیں تھے اور وہ اس ردِ انقلاب کا راستہ نہیں روک پائے۔ یہ منصوبہ بند معیشت اور مطلق العنانیت کا تضاد ہی تھا جس کے باعث عالمی سوشلسٹ انقلاب کی طرف پیش رفت کا یہ سنہری موقع ضائع ہو گیا۔ عام طلبہ اور محنت کش تو درکنار بائیں بازو کے کارکنان کی اکثریت کے لیے بھی اس تضاد کو بھانپنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سٹالن کے زیرِ حکومت منصوبہ بند معیشت کے باعث ترقی اتنی برق رفتار تھی کہ دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیاں اور ان کی قیادتیں اس نظام کی درستگی پر سوال اٹھانے کا تصور بھی نہ کر سکیں اور یہ جسارت کرنے والے لیون ٹراٹسکی اور اس کے ساتھیوں کو غدار قرار دے کر ان کی تعلیمات کے مطالعے کو ہی مزدور تحریک میں شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔
سٹالن نے لینن کی وفات کے فوری بعد ہی ’ایک ملک میں سوشلزم‘کا بیہودہ غیر مارکسی اور غیر لیننی تصور پیش کر دیا تھا اور بعد ازاں چرچل اور روز ویلٹ کے ساتھ معاہدے کے بعد 1943ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کا خاتمہ کر کے لینن ازم سے اپنا آخری برائے نام رشتہ بھی عملاً ختم کر ڈالا اور یوں عالمی مزدور تحریک کی سیاسی بے راہروی ناگزیر حقیقت بن گئی جسے ٹراٹسکی نے ’قیادت کے بحران‘کا نام دیا۔
افسر شاہی کے شکنجے میں سوویت یونین میں سوویتوں کا تصور ہی عملاً ختم ہو چکا تھا اور محنت کش فیصلہ سازی میں برائے نام ہی شامل ہوتے تھے۔ ایک مطلق العنان افسر شاہی سوویت یونین پر قابض تھی جس کا بہت بڑا حجم ریاستی پیداواریت کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھاتا رہا۔ اسی افسر شاہی کے طفیلیے کردار کے باعث منصوبہ بندی میں تعطل اور نقائص پیدا ہوئے اور معاشی اور سیاسی بحران شدت اختیار کرتا چلا گیا جو بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے 72 سالوں میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ معیشت کا ماہر یا سیاسی تجزیہ نگار سوویت یونین کے انہدام کا تناظر تخلیق نہیں کر سکا۔
یہ لینن، ٹراٹسکی، ٹیڈ گرانٹ جیسے مارکسی اساتذہ ہی تھے جنہوں نے اس عرصے میں بار بار سوویت افسر شاہی کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کی اور وضاحت کی کہ اگر محنت کش طبقے نے افسر شاہی کے خلاف سیاسی انقلاب برپا نہ کیا تو بالآخر افسر شاہی اپنی مراعات کی نسل در نسل منتقلی کے لیے نجی ملکیت کی راہ ہموار کرے گی اور سرمایہ دارانہ نظام میں واپسی ناگزیر ہو جائے گی۔ بالآخر 1989ء میں یہ حادثہ بھی ہو گزرا اور سوویت یونین زمین بوس ہو گیا۔
سوشلزم کے ناقدین جتنا بھی شور شرابہ کر لیں سوویت یونین میں منہدم ہونے والا سوشلزم نہیں تھا سٹالنزم ہی تھا۔ لیکن اگر اس تجربے کو واقعی ناکام مان بھی لیا جائے تب بھی یہ کوئی تاریخی عجوبہ ہرگز نہیں ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام بھی جب تاریخ کے افق پر نمودار ہوا تھا تو ہالینڈ اور برطانیہ اور حتیٰ کہ فرانس میں بھی پہلے ہی تجربے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو گئے تھے۔ انقلابِ فرانس بلاشبہ انقلابِ روس کے بعد انسانی تاریخ کا اہم ترین واقعہ تھا مگر وہاں بھی چند سال بعد ہی نپولین کی شکل میں آمریت کا آنا قومی جمہوری انقلاب کی وقتی پسپائی ضرور تھی مگر سرمایہ دارانہ انقلاب بہرحال آگے بڑھتا گیا اور بہرحال پوری دنیا میں فتح مند ہو کر رہا۔ سائنس میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی نئی ایجاد پہلی ہی کوشش میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی، بار بار کے تجربوں کے بعد ہی ایک نئی سائنسی ایجاد مسلمہ شناخت اور کامیابی کی سند حاصل کر پاتی ہے۔
ہم بھی سائنس کے طالبِ علم ہیں اور ہم سوویت یونین کے انہدام کو فیصلہ کن ناکامی نہیں بلکہ وقتی پسپائی سمجھتے ہیں اور ماضی کے اس سنہرے باب سے بہت سے اسباق اخذ کرتے
ہوئے اس انقلابی سفر کو حتمی منزل تک ہر حال میں اور ہر قیمت پر جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.