آپ لوگ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ ہماری تعریف کے مطابق انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہمارا پہلا مقصد طاقت کا حصول ہے۔ در حقیقت ریاست اور حکومتی مشینری، حکمران طبقے کے ہتھیار ہیں جن کے ذریعے سے وہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمیں اس ہتھیار کو چھین کراسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے جو کہ مارکسی بنیادوں پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر ہے۔ اور اسی مقصد کے تحت ہم حکومتی مشینری کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کی نظریاتی تربیت بھی کرنی ہے جو کہ جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک ہو کر بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔
کسی بھی انقلابی پارٹی کے لئے ایک ٹھوس پروگرام ناگزیر ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انقلاب کا مطلب عملی جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب شعوری طور پر اور منظم طریقے سے کام کرتے ہوئے تبدیلی لانا ہے، نہ کہ غیر منظم اور اچانک تبدیلی یا پھر افراتفری۔ اور (انقلابی) پروگرام مرتب کرنے کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا علم ہونا ناگزیر ہے:
1۔ حتمی مقصد
2۔ اس بات کا احاطہ کرنا کہ کام شروع کہاں سے کیا جائے، یعنی کہ معروضی حالات کا جائزہ
3۔ لائحہ عمل اور طریقہ کار
جب تک ان تین باتوں کا مکمل جائزہ نہ لیا جائے کو ئی پروگرام مرتب نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک سوشلسٹ انقلاب چاہتے ہیں جو کہ سیاسی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ سیاسی انقلاب کا مطلب انگریزوں سے ہندوستانیوں تک ریاست (اقتدار) کی منتقلی نہیں، بلکہ ان ہندوستانیوں تک اقتدار کی منتقلی ہے جو حتمی منزل تک ہمارے ساتھ کھڑے رہیں، دوسرے الفاظ میں عوام کی حمایت کے ساتھ انقلابی پارٹی تک طاقت کی منتقلی۔ اگلا درست قدم سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کی تعمیر ہو گا۔ اگر آپ ایسے انقلاب کے متحمل نہیں ہو سکتے تو برائے مہربانی ’’انقلاب زندہ باد‘‘چلانا بند کریں۔ انقلاب کا لفظ ہمارے لئے بہت مقدس ہے اور ہم اسے رسوا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن اگر آپ قومی انقلاب چاہتے ہیں اور آپ کی جدوجہد کا مقصد امریکی طرز پر جمہوریہ ہندوستان کی تعمیر ہے تو مجھے برائے مہربانی یہ بتا دیں کہ کن قوتوں پر انحصار کرتے ہوئے آپ یہ انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں؟ (انقلاب چاہے) قومی ہو یا سوشلسٹ یہ فریضہ صرف مزدور اور کسان ہی پورا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ (صرف قومی بنیادوں پر)کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں سے بیوقوف بننے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ : جس انقلاب کے لئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں وہ انہیں کیا دے سکتا ہے؟آپ انہیں اپنے’ مقصد‘کے لیے استعمال نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گاکہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کے لئے ہے۔ پرولتاریہ کے لئے پرولتاری انقلاب۔
حتمی مقصد کو واضح کر لینے کے بعد ہی آپ، اپنی قوتوں کو عملی کاروائی کے لئے منظم کر سکتے ہیں۔ اب آپ کو لازمی طور پر دو مراحل سے گزرنا ہو گا، پہلا تیاری اور دوسرا عمل۔ موجودہ تحریک کے ختم ہونے کے بعد آپ مخلص انقلابیوں میں بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت دیکھیں گے۔ لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جذباتی پن کو ایک طرف پھینک دیں۔ حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ انقلاب ایک مشکل کام ہے۔ یہ کسی (اکیلے) آدمی کے بس کی بات نہیں۔ نہ ہی اس کے لئے کوئی مقررہ تاریخ دی جا سکتی ہے۔ بلکہ انقلاب مخصوص معاشی و سماجی حالات میں برپا ہوتے ہیں۔ منظم پارٹی کا اصل کام ایسے حالات کی جانب سے مہّیا کیے گیے مواقع کا فائدہ اٹھانا ہے۔ انقلاب کے لئے عوام کو تیار کرنا مشکل کام ہے، اور یہ کام انقلابیوں سے قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں ایک بات میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کاروبار سے وابستہ ہیں یاپھر روز مرہ کاموں اور خاندان میں مصروف رہنے والے آدمی ہیں تو مہربانی کر کے آگ سے مت کھیلئے۔ ایک لیڈر کے طور پر آپ پارٹی کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ ہمارے پاس پہلے سے ہی شام کو وقت گزاری کے لیے تقریر کرنے والے لیڈروں کی بہتات ہے، جو بیکار ہیں۔ ہمیں لینن کے الفاظ میں ’’پروفیشنل انقلابی‘‘ درکار ہیں، تمام تر وقت کام کرنے والے ایسے کارکن جن کی زندگی کا مقصد انقلاب کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ ایسے انقلابی کارکن جتنی زیادہ تعداد میں پارٹی کے اندر منظم ہوں گے کامیابی کے امکان اتنے ہی زیادہ ہیں۔
منظم طریقے سے آگے بڑھنے کے لئے ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جس کے اندر ایسے کارکن، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، نظریات سے لیس ہوں اور حالات کے مطابق درست فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پارٹی کا ڈسپلن آہنی ہونا چاہیے اور ضروری نہیں کہ یہ پارٹی صرف زیر زمین ہی کام کرے، بلکہ اسکے متضاد حالات میں بھی کام کر سکے۔ پارٹی کو جن کارکنوں کی ضرورت ہے وہ صرف نوجوانوں کی تحریکوں کے ذریعے بھرتی کیے جاسکتے ہیں۔ لہٰذاہمیں نوجوانوں کی تحریک کو اپنے پروگرام کے آغاز کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کی تحریک میں سٹڈی سرکل، کلاس لیکچرز منعقد کیے جائیں اور کتابچے، فارم، کتابیں اور رسالے چھاپے جائیں۔ سیاسی کارکنوں کی بھرتی اور تیاری کایہ بہترین طریقہ ہے۔ ان بنیادوں پر جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے پارٹی کو اپنا کام آگے بڑھانا چاہیے۔ باقاعدہ میٹنگز اور کانفرنسوں کے ذریعے سے کارکنوں کی تمام تر موضوعات پر تربیت کی جانی چاہیے۔ اگر آپ ان بنیادوں پر کام کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کو صبر سے بھی کام لینا ہوگا۔ اس کام کی تکمیل کے لئے کم از کم بیس سال درکار ہیں۔ اس مقصد کے لیے جذباتیت یا خون خرابے کی بجائے مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد، پیش قدمی اور قربانی چاہیے۔ سب سے پہلے انفرادیت اور ذاتی تسکین کے خوابوں سے چھٹکارہ پانا ہو گا۔
اس کے بعد کام کا آغاز کیا جائے۔ آپ کو انتہائی دھیمی رفتار سے آگے بڑھنا ہو گا جس کے لئے ہمت اور مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ مشکلات اور مصیبتیں آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ مصائب اور کامیابیوں کے اس امتحان سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے، اور آپ کی ذاتی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ثابت ہو گی۔
(نوجوان سیاسی کارکنان کے نام بھگت سنگھ کے خط سے اقتباس جو 2 فروری 1931ء کو لکھا گیا)