|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،کوئٹہ|
پروگریسیو یوتھ الائنس بلوچستان کی طرف سے 27 فروری کو جناح ہال،میٹروپولیٹن میں ”سماج آزاد! عورت آزاد!“ کے عنوان پر سیمینار اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔پروگرام مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا جس میں پہلے سیشن ”سماج آزاد! عورت آزاد!“پر سیما خان نے تفصیلی بحث کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض جویریہ ملک نے ادا کئے۔دوسرے سیشن میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں اردو میں شعراء نے اپنی خوبصورت انقلابی اور رومانوی شاعری سنائی۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کرتے ہوئے جویریہ نے پی وائی اے کا تعارف کروایا اور بتایا کہ پی وائی اے طلبہ کی ایک ترقی پسند تنظیم ہے پی وائی اے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بے روزگاری کے خاتمے، فیسوں میں اضافے، طبقاتی نظام تعلیم اور طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف اور خاص طور پر طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جہدوجہد کر رہی ہے۔
سیمینار کے آغاز میں سیما خان نے بات کرتے ہوئے تقریب میں تمام شرکا ء کا شکریہ ادا کیا اور خواتین کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی شکست کے عہد میں جی رہے ہیں۔ کسی بھی نظام کی طرح سرمایہ داری بھی اپنی بنیاد یعنی معاشی شکست کا اظہار اپنے دیگر اداروں کی ٹوٹ پھوٹ میں کر رہی ہے۔ سیاست، ریاست، سماج، خاندان، اخلاقیات، نفسیات غرض یہ کہ تمام تر معاشرتی پہلو شدید بحران کی لپیٹ میں ہیں۔ خاص کر خواتین کے حوالے سے دیکھیں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہراسمنٹ، ریپ، چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں اور اس جیسے کئی مسائل کو پہلے ”چندایک برے لوگوں کی ذاتی بد اخلاقی“سمجھا جاتا تھا، لیکن اب ان مسائل کو یکسر مختلف اور بہتر نقطہ نظر سے دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ اس وقت سماج میں موجود سرمایہ داری کی تمام غلاظتیں، ناانصافیاں، عورت کے ساتھ کیا جانے والا امتیازی سلوک، صنفی امتیاز اپنی انتہاوں کو چھو رہے ہیں۔
سیما خان کی تفصیلی بات کے بعدسماجی کارکن حمیدہ نور نے کہا کہ عورت اس وقت مرد کے برابر ہو سکتی ہے جب وہ معاشی لحاظ سے مرد کے برابر ہوگی۔ اس کیلئے سماج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ معروف سیاسی تجزیہ کار راحت ملک نے کہا کہ عورت نے جدوجہد کرکے تعلیم حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے اور اپنی اجرت میں اضافے کا حق حاصل کیا۔ لیکن یہ جد وجہد ابھی تک نا مکمل ہے اور یہ جدوجہد تب تک جاری رہے گی جب تک یہ سماج جس پر ان تمام تر مسائل کی بنیادیں کھڑی ہیں اس کواکھاڑ پھینک کر نئے معاشی و سماجی نظام کی بنیاد نہیں رکھی جاتی جس میں تمام فیصلوں میں عورت براہ راست حصہ لے گی۔ تقریب سے سرور جاوید، تسنیم صنم اور جہاں آرا تبسم نے بھی خطاب کیا۔
اسکے بعد بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے باسط خان نے کہا کہ عورت کی نجات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ سیاسی میدان میں براہ راست اپنا حصہ ادا نہیں کرتی۔ جب تک گھریلو غلامی ہے اور عورت باورچی خانہ اور نرسری سے باہر نکل کر وسیع دنیا کا حصہ نہیں بنتی تب تک اس کی نجات ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کامریڈ باسط نے سماجی کارکن حمیدہ نور کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مارکسزم کا فیمینزم سے یہ اختلاف ہے کہ فیمینزم کو ماننے والے سرمایہ دارانہ نظام کے اندررہتے ہوئے خواتین کے مسائل کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور اسطرح وہ این جی اوز کو بھی عورت کے حقوق کا نمائندہ سمجھتے ہیں جبکہ ان این جی اوز کا اصل مقصد عورت کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ان مسائل کو جواز بنا کر اپنی جیبیں بھرنا ہے اور اس غلیظ دھندے سے کروڑوں روپے کمانا ہے۔ جہاں تک برابری کی بات ہے تو وہ موجود ہے لیکن یہ برابری صرف سرمایہ دار اور حکمران طبقے کی خواتین تک محدود ہیں کیونکہ اس طبقے کی خواتین معاشی طور پر آزاد ہیں۔ جہاں روزانہ ہزاروں خواتین جنسی ہراسانی اور معاشی قتل کا شکار ہوتی ہیں وہیں حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریاست تک کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اس کی زندہ مثال ہیلری کلنٹن اور مریم نواز ہیں۔
پہلے سیشن کے اختتام پر کامریڈ کریم پرہار نے بات کرتے ہوئے محنت کش خواتین کے مسائل پر گفتگو کی اور تقریب میں شریک تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ریلی کا علان کیا۔
دوسرا سیشن ’مشاعرے‘ پر مشتمل تھاجس کی نظامت ثانیہ خان نے کی۔ پروگرام میں مختلف تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلبہ، اساتذہ اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ مشاعرے کا آغاز ثانیہ خان نے اپنی شاعری سے کیا۔ اسکے بعد ایک ایک کر کے طیبہ عرشی، اکبر انجم، وصاف باسط، احمد وقاص کاشی، سلیم شہزاد، سلام عاصی، فریدہ شاہین، یاسین ضمیر، احمد وقاص، جہان آراء تبسم، تسنیم صنم، راغب تحسین، عصمت درانی اور سرور جاوید نے اپنی مزاحمتی اور رومانی شاعری سنائی۔ اس کے ساتھ سیمینار اور مشاعرے کا باقاعدہ اختتام ہوا۔