|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
13 اپریل بروز جمعہ پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور نے مشال خان کی برسی کے موقع پر ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جسکا مقصد مشال کے ساتھ عہد کی تجدید اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا۔ اس احتجاجی ریلی میں اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ریلی کا آغاز یونیورسٹی چوک سے کیا گیا اور فرید گیٹ سے ہوتے ہوئے براستہ ڈسی او چوک، یونیورسٹی چوک پریس کلب کے سامنے اختتام کیا گیا۔
ریلی کے اختتام پر پی وائے اے سے کامریڈ عرفان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اس احتجاجی ریلی کا مقصد پورے پاکستان میں مظلوم قومیتوں پر ہونے والے قومی جبر اور پی ٹی ایم کے ابھار میں کارفرما بنیادی ظالمانہ محرکات کی پرزور مذمت کرنا ہے اور مشال خان کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے ہوئے تعلیم کے کاروبار کے خاتمے، مفت تعلیم اور طلبہ یونین کی بحالی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے طالبعلم سعداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ فاٹا فوجی چیک پوسٹوں سے لبریز ہے مگر اس کے باوجود وہاں پر دہشت گرد حملے ہوتے ہیں جسے ریاست ہندوستانی کارروائیاں کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتی جوکہ اسکی سمندر کی گہرائیوں سے سوناتلاش کرنے کا دعوی کرنے والی خفیہ ایجنسی کے منہ پر پرزور طمانچہ ہے اور اس بات کا واضح اظہار ہے کہ دہشت پھیلانے والے تمام ’نامعلوم‘ افراد فوج اور اس ریاست کے ہی پیدا کردہ گماشتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ پشتونخواہ میں اٹھنے والی قومی جبر کے خلاف اس تحریک کو دیگر مظلوم قومیتوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا ہوگا کیونکہ پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی سمیت تمام قومیتیں جی ایچ کیو کی ستم زدہ ہیں اور اب سب کو یکجہتی کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی کے ہی ایک اور طالبعلم شیر رحمان نے کہا کہ ہم پشتون آزادی چاہتے ہیں ایک ایسی آزادی کہ جو ہم کو سکون، محبت اور جمالیاتی طور پر حسین زندگی کا عندیہ دے اور اس کے لیے ہم کو صرف پشتونوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہم کو ہر مظلوم کے لیے آزادی کا نعرہ لگانا ہے چاہے اس کا تعلق پاکستان کی کسی برادری سے ہو یا چاہے اس کا تعلق شام، فلسطین غرض کسی بھی ملک کے مظلوم طبقے سے ہو۔
اختتام پر ملتان سے آئے کامریڈ فضیل اصغر نے کہا کہ مشال خان کا قتل ستائیس لوگوں پر مشتمل ایک ہجوم نے نہیں کیا بلکہ اس گماشتہ ریاست نے سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کروایا ہے جو کہ تھوڑا سا غور کرنے پر بھی روز روشن کے مانند عیاں ہوجاتا ہے۔ پاکستان کے امرا، جرنیلوں، بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کی اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں اور سرکاری یونیورسٹی طلبہ کی اکثریت مزدور طبقے کے طلبہ پر منحصر ہوتی ہے کہ جہاں ان کو ایک غیر معیاری اور عملی زندگی سے قطعی طور پر جدا تعلیم دی جاتی ہے اور قرضوں کے بجھ تلے سسکتی یہ ریاست جہاں دیگرعوامی اداروں کو نجکاری کررہی ہے وہیں پر یہ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری یا پھر ان میں عدم برداشت کی حد تک فیسوں میں کمرتوڑ اضافے جیسے ظالمانہ و جابرانہ منصوبوں پر عمل پیرا ہے جس کے خلاف ہم کو لڑنا ہے اورFeesMustEnd کے نعرے تلے تمام طلبہ کومتحد ہوکر جدوجہد کرنی ہے۔