بہاولپور: اسلامیہ یونیورسٹی سیلاب زدہ طلبہ کی فیسیں فی الفور ختم کرے!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تعداد کے لحاظ سے اس وقت جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جہاں ستر ہزار سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے ہزاروں طلبہ ایسے ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اکثریت چھوٹے کسان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا سارا گزر بسر زراعت سے ہے۔ ان کے والدین کوئی بڑے جاگیردار نہیں بلکہ تھوڑی بہت ملکیت رکھنے والے کسان ہیں جو سیلاب سے پہلے بھی بمشکل ہی اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر پا رہے تھے۔ سیلاب اور مون سون بارشوں کے باعث ان کی تمام تر فصلیں ڈوب چکی ہیں، مویشی مر چکے ہیں اور سر ڈھانپنے تک کے وسائل بھی باقی نہیں مگر ان آفت کے مارے طلبہ سے انتظامیہ مکمل دھونس اور دھمکیوں سے فیس بٹور رہی ہے، جسے طلبہ قرض لے کر یا کوئی اسباب گروی رکھ کر ادا کر رہے ہیں۔ ایسے میں کافی طلبہ تو تعلیم کو خیر باد بھی کہہ چکے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں یونیورسٹی کچھ فی صد فیس معافی کی ڈرامے بازی بھی کررہی ہے تاکہ انگلی بھی نہ کٹے اور نام بھی شہیدوں میں آجائے۔ یہ بھی درحقیقت انتظامیہ کو ایک بڑی طلبہ تحریک کے خوف کی وجہ سے ہی کرنا پڑا ہے۔ بہر حال یہ سراسر ڈرامہ ہے اور طلبہ کو لولی پاپ دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے متعدد طلبہ کی جانب سے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ تعاون نہیں کر رہی۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ جب وہ فیس معاف کروانے کیلئے جاتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کاغذ لے کر آؤ جس سے یہ تصدیق ہو سکے کہ کہ وہ واقعی سیلاب متاثرہ طالب علم ہے۔ اس کے علاوہ کئی درخواستیں لکھنی پڑتی ہیں اور بالآخر چند ہزار روپے معاف کیے جاتے ہیں جن سے انہیں کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ اب فرض کریں ایک طالب علم کی فیس 50 ہزار روپے ہے، اگر اس میں سے 10 ہزار روپے معاف کر بھی دیے جاتے ہیں تو اس سے طلبہ کا کونسا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کیا وہ ہاسٹل فیس بھرنے کی سکت رکھتے ہیں یا روزانہ کھانا کھانے کی سکت رکھتے ہیں؟ یہ چند فیصد کی فیس معافی طلبہ اور والدین کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسیاں سیلاب سے تباہ حال طلبہ کا مذاق اڑانا ہے جو کہ پاکستان کے حکمرانوں کی سفاکی کو واضح کرتا ہے۔ یہ کسی صورت ممکن ہی نہیں کہ اپنے روزگار اور ساری جمع پونجی لٹ جانے کے بعد ان کے خاندان ایک سال بعد بھی اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرسکیں۔

ایک طرف نااہل ریاست اور حکمران طبقے نے نہری نظام کو تباہ کردیا ہے اور سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا۔ دوسری طرف اس ساری تباہی کے بعد کوئی رلیف نہیں دیا جارہا۔یہ حکمران طبقے کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے جس نے عوام کو بے سروسامان کر دیا ہے۔ سیلاب سے تباہی کی ذمہ دار موجودہ ریاست اور حکمران ہیں۔ پھر کس بنیاد پر اس کا بوجھ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر لادا جارہا ہے؟ اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سیلاب زدہ طلبہ کی فیس وصولی روکی جائے، پہلے سے وصول کردہ فیس واپس کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ طلبہ کو خوراک، رہائش اور دیگر ضروری سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔

اورہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سیلاب زدہ طلبہ کی ایک سال کے لئے فیس مؤخری کا اعلان بھی کیا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ اقدام بھی اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اقدام کے جیسا ہی فراڈ ہے، یہ کیسی داد رسی ہے کہ ایک سال بعد طالبعلموں کو 2 سمیسٹر سابقہ اور ایک اگلا سمیسٹر کل ملا کر تین سمیسٹروں کی فیس ادا کرنا ہوگی؟ سیلاب سے پہلے بھی عوام بمشکل گزربسر کر پارہے تھے، لیکن اب کہ جب سیلاب نے عوام کو بلکل ہی تباہ و برباد کر دیا ہے، زندہ رہنا بھی محال ہوچکا ہے۔ یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک سال بعد تین سمیسٹروں کی فیس ادا کی جاسکے۔

اس لیے پروگریسو یوتھ الائنس فیس میں چند فیصد رعایت اور فیس مؤخری جیسے سب اقدامات کو رد کرتا ہے اور باور کراتا ہے کہ واحد قابلِ قبول اقدام فیسوں کا مکمل خاتمہ ہے۔ اور طلبہ کو یہ بھی باورکرواتا ہے کہ موجودہ حکمران اور یونیورسٹی انتظامیہ کسی طور یہ اقدام کرنے والے نہیں کیونکہ اس وقت یونیورسٹیاں تعلیم دینے کے ادارے نہیں بلکہ دولت کمانے کے اڈے بن چکے ہیں اور موجودہ حکمران مسلسل تعلیمی بجٹ کو کم کر کے اس کمائی کے عمل کو شدیدتر کرتے جارہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیلاب سے متاثرہ طلبہ آپس میں جڑت قائم کریں اور انتظامیہ اور حکومت کو مجبور کرتے ہوئے اپنا یہ حق چھین لیں۔

ظاہر ہے اسلامیہ یونیورسٹی کے تمام طلبہ کا تعلق سیلاب زدہ علاقوں سے نہیں ہے لیکن اس مشکل وقت میں ان کو بھی متاثرہ طلبہ لے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس لڑائی میں ساتھ دینا ہوگا۔ چونکہ ایک طرف تو یہ سیلاب متاثرین کی فیس کے خاتمے کے لئے مددگار ہوگا، لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ گزشتہ لمبے عرصے سے ریاست کی جانب سے مسلسل تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ نتیجتاً فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ یونین کی بحالی، تعلیمی بجٹ میں اضافہ، ہراسمنٹ کا خاتمہ، ٹراسپورٹ اور ہاسٹل کی سہولیات کی کمی جیسے دیگر مسائل کے حل کے لئے طلبہ اتحاد ناگزیر بن چکا ہے۔ یہ سیلاب سے متاثرہ اور باقی طلبہ کی مشترکہ لڑائی ہے جس کو مشترکہ محاذ پر لڑنا ہوگا۔ اس لڑائی میں بہاولپور کے باقی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

اور اسی طرح یہ مسائل اور سیلاب کے باعث تباہی فقط جنوبی پنجاب تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے چاروں صوبے زیرِ آب ہیں۔یہ جدوجہدصرف بہاولپور تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ سے جڑی ہوئی ہے۔اس لیے فیسوں کے خاتمے کا مطالبہ اور اسکی جدوجہد بالعموم تمام تر طلبہ کی جدوجہد ہے اور اس وقت بڑھتی مہنگائی اور روپے کی گرتی قدر کے عہد میں فیسوں میں چند فیصد کی کمی نہیں بلکہ سو فیصد خاتمہ ہی درست مطالبہ ہے، یہ تمام طلبہ کا بنیادی حق ہے۔ سیلاب زدہ طلبہ کے لئے مفت تعلیم کی جدوجہد میں عام طلبہ کی شمولیت لازمی ہے جو نہ صرف یہ کہ اس وقت فوری طور پر طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے بلکہ مستقبل میں متوقع حملوں کے پیش نظر بھی ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔


ہمیں سمجھنا ہوگا کہ موجودہ ریاست سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہی ہے جس میں تمام تر حکومتی پالیسیاں حکمران طبقے کے مفادات کے لئے بنائی جاتی ہیں، نہ کہ عام محنت کش عوام کی سہولیات کے لئے۔ اس لیے ریاست مستقل طور پر عوام پر معاشی حملے کررہی ہے جو مستقبل میں شدید تر ہوں گے اور ہم سے تعلیم و صحت سمیت روزگار کے تمام تر مواقع چھینے جائیں گے جس کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے۔ اس نظام میں اس ریاست سے یہ اُمید لگا کر بیٹھنا کہ وہ خود بخود طلبہ کو درپیش مسئلے حل کردے گی یہ سوائے دیوانے کے خواب کے کچھ نہیں، اگر آج طلبہ منظم جدوجہد کی جانب نہیں بڑھتے تو کل کو یہ حملے مزید شدید ہوں گے، تعلیم کا دھندہ بڑھے گا، فیسیں ہزاروں سے لاکھوں میں جائیں گی، روزگار کے مواقعے ختم ہوتے جائیں گے، اس سلسلے کا حل نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ طلبہ خود منظم ہوں۔

اس جدوجہدمیں سیلاب متاثرہ طلبہ کے ساتھ دیگر طلبہ بھی شریک ہوں اور تمام تر نسلی و مذہبی تعصبات اور تفریقوں کو مٹا کر یک جُٹ اور یک جان ہوں۔ کسی بھی انتظامیہ کی پالتو تنظیم اور کسی سیاسی پارٹی کا آسرا لیے بغیر ہر ایک کلاس کے لیول پر اپنی کمیٹیاں بنائیں، خود اپنے فیصلے کرتے ہوئے کلاسوں کا بائیکاٹ کریں اور احتجاج کی جانب بڑھیں اور یہ سلسلہ پھر ایک کلاس اور ایک یونیورسٹی کا نہیں بلکہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں تک پھیلایا جائے تو یقیناً وہ دن دور نہیں ہوگا جب عوام دشمن حکمرانوں سے نا صرف مفت تعلیم حاصل کریں گے بلکہ طلبہ یونین کی بحالی اور روزگار سمیت ایک بہتر کل چھین سکیں گے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس سلسلے میں اسلامیہ یونیورسٹی سمیت ملک بھر کے طلبہ کو منظم کررہا ہے اور ہم دعوت دیتے ہیں کہ تمام طلبہ اپنے حقوق کی اس جدوجہد میں پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.