|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس پشاور|
9 جون, بروز پیر آدھی رات کو پشاور یونیورسٹی کی پولیس نے پرووسٹ کے کہنے پر نیو ہاسٹل A, B, C اور D بلاک پر رعب بنانے کیلئے چھاپہ مارا اور سینکڑوں طلبا کو گرفتار کر کے لے گئے۔
ان میں سے متعدد طلبا کو اپنے ڈیپارٹمنٹس نے بھی بلایا ہوا تھا لیکن ہاسٹل پہنچتے ہی ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں پولیس اور باقی اداروں کے غنڈوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مزاحمت کرنے والے طلبا کو علیحدہ وین میں 2 گھنٹوں کیلئے سخت گرمی میں قید کر لیا گیا جس سے کافی طلبا کی حالت خراب ہو گئی۔
یونیورسٹی میں مقیم مختلف سیاسی تنظیموں کے اتحاد “متحدہ طلبا محاذ” کا دعویٰ ہے کہ انتظامیہ اس سال فیسوں میں 20 فیصد تک اضافہ کرنے جارہی ہے۔ اگر یہ واقعی اسی طرح ہے تو مزدوروں کے بچوں کیلئے تو تعلیم پہلے سے ہی ناممکن تھی, اب درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں کیلئے بھی یونیورسٹی میں پڑھنا ممکن نہیں رہیگا۔ اس کیساتھ ساتھ طلبا حقوق کی جمہوری اور آئینی جدوجہد کا راستہ روکا جارہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ سیکیورٹی کے امور فوج کے سپرد کیے جائینگے۔ ہاسٹل میں کام کرنے والے ایک ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ رات کو ہونے والے واقعے کے پیچھے بھی فوج ہی تھی۔ آج سے ہاسٹل بند کر دیا گیا ہے اور پولیس کے جاسوس ہر کسی کی نگرانی میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی فوجی چھاونی کی تصویر پیش کر رہی ہے۔
یہ درست ہے کہ ہاسٹلز میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی علاقائی اتحادی تنظیموں کی قیادت کی اکثریت بڑے پیمانے پر کمروں کی خرید و فروخت میں مصروف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں “متحدہ طلبا محاذ” کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ لیکن یہ قیادت انتظامیہ کے آشیر باد کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ حالت اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ غیر جانبدار طلبہ ان کیساتھ چلنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ اس دفعہ انتظامیہ اپنے مالی بحران کی وجہ سے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ طلبہ کو مکمل گرفت میں رکھا جائے تاکہ طلبا کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی وجہ سے عام طلبہ کیساتھ ساتھ روایتی قیادت کیخلاف بھی آپریشن کیا جارہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایسے شواہد بھی موجود ہیں جن میں ہاسٹل کے وارڈنوں نے لاکھوں روپے طلبا سے لیے ہوئے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس انتظامیہ کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کی پرزور مذمت کرتی ہے اور وہ طلبا اور مخلص قیادتیں جو واقعی طلبا کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد میں ہیں کیساتھ ہر مشکل وقت میں شانہ بشانہ کھڑی ہے اور فیسوں میں اضافے اور حراسگی جیسے حقیقی مسائل کے حل کیلئے طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح کرتی ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اس وقت طلبہ کی جانب سے ایک بڑی تحریک سے شدید خوفذدہ ہے۔ اسی وجہ سے طلبہ کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ عمل ہمیں پہلے بولان میڈیکل کالج (کوئٹہ) میں بھی دیکھنے کو نظر آیا ہے۔ انتظامیہ کی ان چالوں اور طلبہ دشمن اقدامات سے لڑنے کا واحد رستہ ملک گیر طلبہ اتحاد کی صورت میں ایک طلبہ تحریک ہے۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!
طلبہ یونین بحال کرو!