|تحریر: ناصرہ وائیں|
چاند اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ اور ستاروں کے جھرمٹ میں کالے آسمان پر اٹھلا اٹھلا کر چل رہا تھا۔ لیکن اس کی چاندنی بھی میری بے چینی کو سمجھ نہیں پائی تھی حالانکہ یہ چاندنی تو میرے بچپن کی سنگی ساتھی تھی۔ میں بار بارکروٹ بدل رہا تھا لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی مچھر وں کی فوج بھی حسب معمول بھر پور وار کر رہی تھی حبس تھا اور کوئی پتہ تک نہیں ہل رہا تھا۔ اورگرمی نے بھی انتہا کر چھوڑی تھی۔ میں بار بار سونے کی کوشش کرتا تو میری آنکھ اچانک سے کھل جاتی۔ محمد احمد تو کبھی ڈاکٹر نہیں بن سکتا۔ تیرے نمبر کم آئے ہیں۔ میں گھبرا کے ارد گرد دیکھتا تو میرے آس پاس میری بوڑھی دادی کے کوئی نہیں تھا۔ صرف فضا میں اسکے خراٹوں کی آوازسنائی دیتی۔ آج کی رات تو بہت ہی لمبی ہے نجانے کب ختم ہو گی۔
میرانام محمد احمد ہے۔ بچپن میں ہی ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ہمارے گاؤں میں ایک ایسی بیماری پھیلی جس سے ہمارے گاؤں کی آدھی بستی اجڑ گئی۔ چند خوش قسمت لوگ ہی اس بیماری سے صحت یاب ہو سکے جنھوں نے شہر جا کر ڈاکٹر سے علاج کروایا۔ گھرکا سارا اثاثہ تو پیر صاحب لے کر چلتے بنے لیکن ان کی خاک سے بنی پڑیاں میرے ماں باپ کو بچا نہ سکیں۔ تب سے میری دادی نے ٹھان لیا تھا کہ مجھے ہر حال میں ڈاکٹر بنائے گی۔ اس وقت مہنگائی اتنی نہیں تھی اورتھوڑی سی زمین تھی اور ایک بھینس بھی تھی۔ ہمارا گزارا اچھے سے ہو جاتا تھا۔ مطلب روکھی سوکھی روٹی دودھ میں ڈبو کر پیٹ بھر لیا کرتے۔ مکھن کا گھی بنا کر دادی بیچ کر میری دیکھ بھال میں صرف کرلیتی۔ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ جب میں چھ برس کا ہوا تو قریبی گاؤں کے سکول میں بھرتی کرادیاگیا۔ ہر روز پانچ کوس پیدل چل کر میری دادی سکول پہنچ جاتی اور ماسٹر کی منت سماجت کرتی کہ وہ مجھے لائق بنا دے تاکہ میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بن سکوں۔ ماسٹر صاحب خدا ترس انسان تھے۔ سکول کے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتے۔ اپنے بچوں کے ساتھ پڑھادیتے اور بدلے میں میری دادی دو کلو دودھ ان کو دے دیتی اور ماسٹرنی کے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتی۔ اس لئے ماسٹرنی کے بچوں کے کپڑے بلا معاوضہ سی دیتی۔ وقت پنکھ لگائے اڑتا گیا دادی محنت کرتی رہی اور میں بھی راتوں کو جاگ جاگ کر صرف پڑھتا ہی رہا۔ میری زندگی میں پڑھائی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ مڈل کے امتحان میں ضلع بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور میٹرک میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔
رات کو نیند نہ آنے سے میں وقت مقررہ پر بیدار نہ ہو سکا۔ دادی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ اٹھ احمد۔۔ میں آنکھیں ملتے ہو ئے جاگا تو دادی کہنے لگی۔ تو رات کو کیا بڑ بڑا رہا تھا؟ دادی یاد نہیں۔ تو کہہ رہا تھاتیرے نمبر کم آئے ہیں۔ ہاں دادی! آج میرا رزلٹ آئے گا۔ لیکن میرا دل بہت گھبرا رہا ہے کہ کہیں اس بار نمبر کم نہ آ جائیں۔ ’’لے بھلا تیرے نمبر کم کیوں آنے لگے؟ سارا سارادن جب بچے کھیلتے تھے تو اپنی کتاب پڑھتا تھا۔ پھر تو ٹیوشن بھی تو جاتا تھا۔ تیرا استاد کہتا تھا کہ تو بڑا لائق بچہ ہے‘‘۔ دادی نے شفقت سے اس کے بال سہلاتے ہوئے تسلی دی۔ جب میں کالج پہنچا تو معلوم ہوا کہ کیمسٹری، بائیو اور فزکس میں میری سپلی آئی ہے۔ میرے ہاتھ سے کتاب گر گئی اور ایک چکر سا آیا جیسے ساری کائنات میرے اردگرد گھوم رہی ہو۔ میں تو سارا دن روتا رہا لیکن میری دادی یہ خبر سن کر کچھ بولی ہی نہیں۔ چپ چاپ اپنی ایک ٹانگ سے ٹوٹی عینک لگائے ہاتھ سے چھک چھک کرتی مشین کا پہیہ گھماتی رہی۔ میں نے دادی کو ہلاہلا کر بتایا۔ دادی میں فیل ہو گیا۔ لیکن وہ میری بات سنے بغیر اپنے کام میں مصروف ر ہی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ جماعت کے سب سے نا لائق بچے کے سب سے زیادہ نمبر آئے تھے۔ اگلے روز کالج جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ایک دھان پان سی لڑکی کو دیکھا جو بورڈ کے سامنے بینر اٹھائے کھڑی تھی۔ اس کے یونیفارم کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ گورنمنٹ کالج کی لڑکی ہے جو اپنے حق کیلئے اکیلی کھڑی ہے۔ اس کو دیکھ کر میرے اندر بھی ہمت پیدا ہوئی۔ میں نے اپنے کالج پہنچ کر فطری جوش وخروش سے احتجاج کی بات کی تو ساری جماعت کے لڑکوں نے میرا خوب مذاق اڑایا۔ کیونکہ کلاسز چھوڑنے کے باوجود ان کے نمبر بہت اچھے آئے تھے۔ سالے ! یہ کیوں نہیں مان لیتا کہ تو نالائق ہے۔ احتجاج کرے گا آیا بڑا انقلابی لیڈر۔ اور باقی سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور تالیاں بجانے لگے۔ جب کیمسٹری کے لیکچرار صاحب کمرہ جماعت میں آئے تو ایک بیک بینچر جس نے کبھی کسی استاد کا لیکچر نہیں سنا تھا۔ کھڑے ہو کر میرا پھکڑ اڑا یا کہ یہ ہیرو بننا چاہتا ہے۔ اپنی نالائقی کو چھپانے کیلئے احتجاج کا سہارا لے رہا ہے۔ ہماری قسمت دیکھ!کبھی کتاب کھول کر نہیں دیکھی اور پچاسی میں سے ستانوے نمبر آئے ہیں۔ لیکچرار نے بھی مجھے خوب لتاڑا۔ کیا تم لوگوں کا اتنا ظرف ہے کہ کسی پر الزام لگا سکو۔ اتنے لائق فائق ہوتے تو یہاں جھک نہ مار رہے ہوتے۔ کسی پرائیویٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے۔ اور یہ احتجاج کرنے سے کبھی کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ نہ کبھی کچھ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ چپ چاپ اگلے امتحان کی تیاری کرو اور یہ ہیروگیری کا خناس ذہن سے نکال لو۔ آجاتے ہیں گاؤں سے اٹھ کر۔ اوقات اتنی بھی نہیں کہ پرائیویٹ کالج داخلہ لے سکیں اور خواب دیکھتے ہیں میڈیکل کالجوں کا۔ حکومت کو سرکاری کالجوں میں یہ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کے شعبے ہی بند کر دینے چاہئیں۔ سرکاری کالجوں کے طالبعلم تو ہوتے ہی نالائق ہیں۔ پھر ان کو شاید اپنی نوکری کا خیال آ گیا۔ خاموش سے ہو گئے۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد دوبارہ ہوش میں آ گئے۔ کہنے لگے۔ خبردار اگر ایسی بات کبھی سوچی بھی۔ اور باقی سب بھی سن لو کوئی ا سکے ساتھ نہ جائے۔ ری چیکنگ کروائی تو تین سپلیاں تو پہلے ہی ہیں اب کہ تمام مضامین میں فیل ہو جاؤ گے۔ سنا تم نے۔ میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے لیکن میں نے کہا کچھ نہیں۔
سارا رستہ سائیکل کے پہیوں کی چوں چراں میں لیکچرار کے الفاظ میرے کانوں میں گونجنے لگتے۔ نالائق!اگر پہلے محنت کی ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ گھر پہنچ کر میں نے دادی کو بتایا کہ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ ہم ر ی چیکنگ کرواسکتے ہیں۔ لیکن فیس بہت زیادہ ہے۔ بیٹا! تو بتا تو سہی۔۔ کتنے روپے کی ضرورت ہے؟دادی نے بڑے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ دادی ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہو سکتی۔ تو بتا تو سہی؟ دادی نے پھر چمکارتے ہوئے کہا۔ دادی۔۔۔ تین۔۔۔ ہزار۔ میں نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ اتنی بڑی رقم نہیں ہے۔ میں بندوبست کرلوں گی اللہ میاں پر بھروسہ رکھ۔ میرا محمد احمد ڈاکٹر ضرور بنے گا۔
دادی کی تسلی کے باوجود میں جانتا تھا کہ اتنی بڑی رقم ہمارے بس سے باہر تھی۔ لیکن میری دادی نے کبھی مجھے جھوٹادلاسا نہیں دیا تھا۔ آخر وہ اتنی بڑی رقم کہاں سے لائے گی؟ گاؤں کا زمیندار یہ رقم دے سکتا ہے لیکن وہ تو ازل سے میرا دشمن ہے۔ اور اب تو سونے کا چھلا تک نہیں بچا تھا۔ پچھلے سال میری ا کیڈمی کی فیس ادا کرنے کیلئے بھینس بھی فروخت کر دی تھی۔ اس رات ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکا تھا۔ دادی چپ چاپ اپنی کھڑی کھاٹ پر پڑی تارے گنتی رہی اور میں کروٹیں بدلتا رہا۔ میں پوری طرح مایوس ہو کر کالج چلا گیا۔
اگلے دن کالج سے لوٹا تو گھر کا دوار کھلا تھااور معمول کے خلاف دادی گھر نہیں تھی۔ میں نے دادی کوکمرے کمرے میں ڈھونڈا لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔ چولھے کے پاس پڑی راکھ گرم تھی اور سلائی مشین پیڑھی پر پڑی تھی اور ارد گرد کپڑوں کی کترنیں بھی موجود تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دادی کچھ دیرپہلے ہی گھر سے نکلی ہو گی۔ ابھی آجائے گی۔ کپڑے دینے گئی ہو گی میں نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی اور کھاٹ بچھا کر گرم گرم روٹی چنگیر سے نکال کر اچار کے ساتھ زہر مار کرنے لگا۔ دادی کہاں چلی گئی۔۔۔ نالائق کہیں کے۔ بار بار اس کا ضمیراس کو کچوکے لگاتا۔ پہلے کچھ پڑھ لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔۔۔ اسی ادھیڑ بن میں شام کا دھندلکا پھیلنے لگا۔ وہیں کھاٹ پر پڑے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ اذان کی آواز سن کرجاگا اورٹھ کر آنکھیں ملتے ملتے اپنی پڑوسن کے ہاں جا پہنچا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کچھ نہیں بس گم سم کھڑی مجھے گھورتی رہی۔ تمہیں کچھ معلوم نہیں تیری دادی کہاں گئی ہے؟ نہیں۔ آپا تو ضرور کچھ جانتی ہے لیکن بتانا۔ میرے جھنجھوڑنے کے باوجود بھی اسکے منہ سے کچھ نہ نکلا۔ اس کو چھوڑ کر باجی شہلا کے گھر گیا۔ ا س نے کہا یہ لے تین ہزار۔۔۔ کل جا کر ری چیکنگ کرا لینا۔۔۔ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ اور میری دادی۔۔۔ اس نے میلے کچیلے آنچل سے آنسو پونچھے۔ وہ کل آجائے گی جا اب جا کر سوجا۔ اور اس نے منہ پر دوپٹہ کس کے رکھ لیا کہ اس کے منہ سے کچھ نکل نہ جائے اور آنکھیں صاف کرتے ہوئے دروازے کا کواڑ بند کرلیا۔ دادی۔۔ دادی کہاں چلی گئی۔۔۔ اور یہ رقم کہاں سے آئی؟ بس ساری رات انہی سوچوں میں گزر گئی۔
صبح سویرے منہ پر پانی کے چھیٹے مارے اور خالی پیٹ کالج کیلئے نکل گیا۔ بورڈ آفس پہنچا تو معلوم پڑا کہ چیئرمین بورڈ نے بغیر فیس کے ری چیکنگ کا آرڈر کر دیا تھا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں نے درخواست لکھی اور فارم بھر کر وہیں سے اندھا دھند سائیکل چلاتے ہوئے گاؤں واپس پہنچا تو ایک ایمبولینس میرے کچے مکان کے سامنے کھڑی تھی اور سارا گاؤں جمع تھااور دہائی دے رہاتھا کہ اس کی دادی نے پوتے کی پڑھائی کیلئے جان دیدی۔ اس نے پوچھا کہ میری دادی کو آخر ہوا کیا۔ تو چاچے معراج دین نے جو کہ اس کا پڑوسی تھا اور شہر میں بھٹی پر مزدوری کرتا تھا بتایا کہ تیری دادی نے بھی پیسے کا بندوبست بھی وہیں سے کیا جہاں سے اس گاؤں کے باقی غریب لوگ ضرورت پڑنے پر کرتے ہیں۔ شہر میں لوگ گردے خرید کر اچھے پیسے دے دیتے ہیں۔ تیری دادی نے بھی گردے بیچ دیئے۔
November 16, 2016
افسانہ: امتحان
More in Art & Literature
- فلم ری ویو: حاصل (HAASIL) May 21, 2024
- فلم ری ویو: پیاسا May 17, 2024
- سیریز ری ویو: دی ریلوے مین May 15, 2024