سوتیلے باپ کے ہاتھوں 17 سالہ بیٹی زیادتی کا شکار

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گوجرانوالہ|

گزشتہ روز گوجرانوالہ میں یہ واقع پیش آیا کہ ایک سوتیلے باپ نے اپنی سترہ سالہ بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اس کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ واقع بچی کے ساتھ اس کے اپنے گھر پر پیش آیا ہے۔ جب بچی کی ماں گھر پر موجود نہیں تھی تو اس کے سوتیلے باپ نے یہ شرمناک فعل سر انجام دیا۔

ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات دن بدِن جنگل میں لگی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ کبھی تعلیمی اداروں کے اندر، کبھی گلی کوچوں میں، کبھی سڑکوں پر، کبھی کام کرنے کی جگہوں پر اور کبھی گھر کی چار دیواری میں بچے، بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اکثر واقعات میں تو زیادتی کے بعد قتل ہی کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی غلاظت نے انسانوں کے رشتوں کے تقدس کو دھیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر اسے ختم کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بڑھتا زوال اس کی وحشت اور گندگی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایسے ہولناک واقعات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔

آج بھلے ہی پاکستان میں زیادتی یا ہراسانی کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن اب ان کی حیثیت بھی پنوں پہ لگی سیاہی سے زیادہ نہیں رہی۔ زینب والے یا دیگر کیسز میں بھی ہم دیکھیں تو ملزمان کو سزا تو مل گئی لیکن کیا ان ملزمان کو سزا ملنے سے ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکا ہے؟ نہیں! بلکہ زیادتی اور ہراسانی کے واقعات تعداد میں پہلے سے زیادہ سامنے آنے لگ گئے ہیں۔ ان کی شدت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ یہاں پر رائج قانون کا اصل چہرہ بھی ہم دیکھ چکے ہیں کہ جہاں قانون کے ”محافظ“ ملزمان کو پکڑنے کی بجائے زیادتی کا شکار ہونے والے بے قصور لوگوں کو ہی ملزم قرار دیتے ہیں۔ اب اس سی سی پی او سے پوچھیں کہ یہ 17 سالہ بچی تو آدھی رات گئے اکیلی باہر نہیں گھوم رہی تھی، اپنے گھر کی چار دیواری میں بیٹھی تھی، جسے کوئی بھی انسان اپنے لیے سب سے زیادہ محفوظ مقام سمجھتا ہے۔ اسے تو اس کے باپ نے گھر بیٹھے ہی نوچ ڈالا۔

ایسے واقعات کو نہ تو گھروں میں قید ہو کر روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہاں پر رائج قانون کے بھروسے بیٹھ کر انہیں روکا جا سکتا ہے۔ تعفن زدہ سرمایہ داری کی غلاظت ہمارے سماج کی جڑوں تک سرائیت کر چکی ہے۔ یہاں صرف وہ انسان محفوظ ہے جس کے پاس اپنی حفاظت کے لیے دولت موجود ہے۔ اس نظام سے اور اس کی تمام ہولناکیوں سے اصلاحات سے نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا نظام، ایسا سماج قائم کیا جائے جہاں زیادتی، ہراسانی جیسی غلاظتیں انسان کو چھُونا تو دور انسان کے آس پاس بھی نہ بھٹک سکیں اور بنی نوع انسان کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ ہو سکے۔ ایسا صرف ایک سوشلسٹ سماج میں ہی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.