|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ|
19دسمبر، بروز ہفتہ ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے موقع پر پاکستان کے 30 شہروں میں مفت تعلیم، طلبہ یونین کی بحالی، جنسی ہراسانی کے خاتمے، ریاستی اغواء کاریوں، مہنگائی، غربت، لاعلاجی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی طلبہ و مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے منعقد کی جانے والی یہ ریلیاں بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں لیفٹ کی کسی بھی تنظیم کی جانب سے آزادانہ طور پر نکالی گئیں سب سے بڑی ریلیاں تھیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ کی جانب سے منعقد کی جانے والی احتجاجی ریلی میں سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ، مزدور، سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کوئٹہ میں ریلی میٹروپولیٹن پارک سے شروع ہوئی اور پریس کلب پر پہنچ کر احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہو گئی۔ احتجاجی مظاہرے کی میزبانی فیصل خان نے کی جبکہ باسط خان، سیما خان اور امیر ایاز نے پروگریسو یوتھ الائنس کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی بات رکھی۔
باسط خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ غریبوں کے بچوں سے تعلیم کا حق چھین رہا ہے۔ اس وقت محنت کش عوام اپنے بچوں کو نہ اچھی تعلیم دے سکتے ہیں، نہ ہی ان کی جائز خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ حکمران طبقے کے ان حملوں کا جواب دینے کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس تعلیمی فیسوں میں اضافے، سکالرشپ کے خاتمے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف ملک کے تمام طلبہ کو منظم کر رہا ہے۔ باسط خان نے مزید کہا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے تمام طلبہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اس طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کریں تاکہ محنت کشوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔
سیما خان نے اپنی بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی میں شدت پکڑتی جا رہی ہے اور خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے ملزمان اب تک گرفتار نہیں ہو سکے اور تمام الزام یونیورسٹی کے ایک سکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کے افسر پر لگا دیا گیا تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔ سیما خان نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کے عرصے میں نجی سکولوں نے ایک طرف والدین سے پورے سال کی فیسیں بٹوریں جبکہ دوسری جانب سکول میں پڑھانے والے اساتذہ اور دیگر عملے کو آدھی تنخواہیں دی گئیں۔ کئی نجی سکولوں نے تو اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں دینے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس جنسی ہراسانی کے خلاف پورے پاکستان میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانے کی کمپئین کا آغاز کر چکا ہے اور ہم بہت جلد بلوچستان میں بھی تمام خواتین تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے اور خواتین کو اپنے ساتھ جوڑنے کی جدو جہد کریں گے۔
احتجاجی مظاہرے سے پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین ماما سلام بلوچ نے بھی خطاب کیا اور پاکستان میں مزدور طبقہ کے مسائل پر تفصیلی بات رکھی۔ ماما سلام نے پروگریسو یوتھ الائنس کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ مزدور طبقہ طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہے گا کیونکہ پروگریسو یوتھ الائنس جن مسائل اور مطالبات کی بنیاد پر یہ ریلی منعقد کر رہا ہے وہ محنت کشوں کے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے حکمران طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ وقت گزر چکا کہ آپ طلبہ کو دبا کر رکھیں۔ اب آپ کو طلبہ اور محنت کشوں کو ایک آزادانہ ماحول مہیا کرنا ہو گا کیونکہ یہ ایک نیا عہد ہے، جس میں طلبہ اور محنت کشوں کو مزید اپنے کنٹرول میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ماما سلام نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ کے لئے مکمل حمایت کا بھی اعلان کیا۔
اس کے بعد احتجاجی مظاہرے سے ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے رزاق غورزنگ نے خطاب کیا جنہوں نے اپنی تقریر کا آغاز انقلابی نظم سے کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ریاست ستر سالوں سے سامراجی اداروں کی ایماء پر ملک کے غریب عوام پر مہنگائی، لاعلاجی، بیروزگاری اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح موجودہ حکومت بھی آئی ایم ایف اور سامراجی اداروں کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر غریب عوام سے جینے کا حق چھین رہی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کر کے اقتدار میں آنے والی حکومت نے لوگوں سے روزگار چھینا اور لوگوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا۔ رزاق غورزنگ نے مزید کہا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اگر ملک میں نئے الیکشن ہو جائیں تو ملک میں جمہوریت آ جائے گی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکمران طبقے کی سیاست ہے اور ہم اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت نئے الیکشن سے نہیں بلکہ جمہوریت کی پہلی شرط تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی اور مزدور یونینز سے پابندی ہٹانا ہے، جس پر کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک لفظ تک نہیں بولتی۔ رزاق غورزنگ نے گوادر میں حفاظتی باڑ لگانے کی بھی مذمّت کی اور کہا کہ یہ ان استعماری پالیسیوں کا تسلسل ہے جس کی بنیاد پر ستر سالوں سے بلوچستان کی مظلوم عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ آخر میں میں انہوں نے پاکستان میں تمام لاپتہ افراد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہیں۔
احتجاجی مظاہرے میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بجار کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اور احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا۔ ریلی میں واپڈا سے تعلق رکھنے والے پیر محمد کاکڑ بھی شامل تھے جنہوں نے واپڈا یونین کی نمائندگی کی۔ احتجاجی ریلی کی آخری تقریر پروگریسو یوتھ الائنس کے نمائندہ امیر ایاز نے کی۔ جنہوں نے اپنی بات کا آغاز طلبہ اور محنت کشوں کے مسائل پر مختصر بات رکھ کر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکمران طبقے نے پاکستان کے غریب عوام پر ایک جنگ مسلط کر دی ہے جس میں غریب عوام کو لاعلاجی، بے روزگاری، مہنگائی اور بے گھری کی جانب دھکیلا جا رہا ہے اور اسی جنگ کے خلاف پروگریسو یوتھ الائنس نے بھی حکمران طبقہ کے خلاف آج ایک جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ تکنیکی اعتبار سے اتنا پسماندہ ہے کہ بیش بہا وسائل ہونے کے باوجود بھی پاکستان کا حکمران طبقہ اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے سے قاصر رہا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار میں رہی ہے لیکن انہوں نے نہ کبھی غریب عوام کو تعلیم کی سہولیات سے آراستہ کیا نہ ہی علاج کی سہولیات مہیا کیں۔
حکمران طبقہ کی جانب سے 600 سرکاری تعلیمی اداروں اور سیکٹرز کی نجکاری کے فیصلے کے حوالے سے امیر ایاز نے کہا کہ ہم سرمایہ داروں کو اپنے تعلیمی ادارے بیچنے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے اور پروگریسو یوتھ الائنس حکمران طبقہ کی جانب سے نجکاری کے حملوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ حقوق کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو ریاست کی جانب سے ہمارے ساتھیوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ کے سرگرم کارکن امر فیاض کی جبری گمشدگی بھی ہمیں طلبہ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ امیر ایاز نے پروگریسو یوتھ الائنس خاران کے دوستوں کو سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے دھمکیاں دینے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ ہم اپنے خاران کے دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم کسی صورت اپنے دوستوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور اگر ہمارے خاران کے ساتھیوں کو کوئی بھی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی تو ہم پاکستان کے محنت کش طبقے کے ساتھ ملتے ہوئے ریاستی غنڈوں کو بھرپور جواب دیں گے۔ آخر میں امیر ایاز نے ملک کے تمام طلبہ سے یہ اپیل کی کہ وہ پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنیں اور طلبہ کے حقوق کی جدوجہد کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اس استحصالی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔