دادو: بالشویک انقلاب کی 99ویں سالگرہ پر تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: خالد جمالی|
russian-revolutionبالشویک انقلاب کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کی جانب سے دادو میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں مختلف اداروں کے نوجوانوں نے شرکت کی۔ پروگرام میں روسی انقلاب کی تاریخ اور انقلاب سے قبل روس کی سماجی صورتحال کو زیر بحث لایا گیا۔ بحث کا آغاز خالد جمالی نے کیا۔

خالد نے کہا کہ روس کا یہ انقلاب انسان کی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب ہے مگر سرمایہ دار حکمران اور ان کا گماشتہ میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس پر بہت ہی کم اور غلط تشریح کرتے ہیں۔ روس انقلاب سے پہلے آج کے پاکستان سے بھی برے حالات میں تھا۔ معاشی طور پر تباہ حال، سماجی طور پر انتہائی پسماندہ اور سامراجی غلام بھی اور خود بھی ایک سامراجی ریاست۔ روس ان دنوں یورپ کے سرمایہ دار ممالک جن میں جرمنی، برطانیہ، فرانس وغیرہ کے سامراجی شکنجے میں اسی طرح جکڑا ہوا تھا جس طرح آج پاکستان، امریکہ، چائنہ اور برطانیہ کے ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے۔ خالد نے بتایا کہ انقلاب کے بعد سب سے پہلے نجی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا اور معیشت کے بڑے شعبوں کو محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت میں لے لیا گیا۔ خالد نے سماج اور سرمایہ داری نظام سے مثالیں دے کر بتایا کہ یہ معیشت سارے سماج کی مشترکہ محنت کا نتیجہ ہے۔ روس میں انقلاب نے معیشت کو چند ہاتھوں سے نکال کر سماجی ملکیت بنایا۔ یہ انقلاب روسی مزدور طبقے کی جرات اور بالشویک پارٹی کی قیادت کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ اور بالشویک پارٹی کی قیادت لینن اور ٹراٹسکی نے کی۔

روس چند سالوں میں منصوبہ بند معیشت اور نجی ملکیت کے خاتمے کی وجہ سے پاکستان جیسے پسماندہ سماج سے ترقی یافتہ سماج میں تبدیل ہو گیا۔ جس نے سب سے پہلے خلا میں راکٹ اور انسان کو بھیجا تھا اور پوری دنیا میں دوسری بڑی معیشت بن گیا اور بہت سے صنعتی شعبوں میں پہلے نمبر پر تھا۔ خالد نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور مزید ترقی کے آگے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ کریم جمالی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ یہ نظام انسان کا معاشی اور سماجی قاتل ہے اور قاتل کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے جو کہ ایک سوشلسٹ سماج کی تخلیق اور تعمیر ہے۔ پروگرام کے شرکا نے روسی انقلاب کے حوالے سے مختلف سوالات بھی اٹھائے جیسے سوویت یونین کیونکر ٹوٹا؟ کیا مزدور اس نظام کو چلا سکتے ہیں؟ نوجوانوں کا اس جدوجہد میں کیا کردار ہے؟ قوم پرستی کس قدر درست ہے؟ خالد جمالی نے تمام سوالوں کا مفصل جواب دیا اور بحث کو سمیٹا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.