|رپورٹ: اسفند یار شنواری|
30 اپریل 2017 کو ثور انقلاب کی 39 ویں سالگرہ چکدرہ پریس کلب میں پروگریسیو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام منائی گئی جس میں پشاور یونیورسٹی، مالاکنڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ساتھ دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ، نوجوانوں اور ترقی پسند کارکنان نے بھرپور شرکت کی۔ افغان ثور انقلاب کی یہ تقریب مشعل خان کو منسوب کی گئی تھی۔
پروگرام کا آغاز سوشلسٹ افغانستان کے انقلابی ترانے سے ہوا۔ اس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ صدیق جان نے افغانستان میں سوشلسٹ نظریات کا تاریخی پس منظر پیش کیا اور کہا کہ بالشویک انقلاب سے متاثر افغان سوشلسٹوں نے روس کا دورہ کیا اور افغانستان آکر ان نظریات کا پرچار شروع کیا۔ بعد میں ایک ترقی پسند رہنما امان اللہ خان کو لینن نے سویت یونین کی جانب سے ایک خط لکھا اور برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔ امان اللہ خان کو پرطانوی سامراج نے ایک سازش کے ذریعے ہٹایا اور ظاہر شاہ کے باپ نادر شاہ کو موجودہ قبائلی علاقہ جات کے راستے سے افغانستان لایا گیا اور صدر بنادیا گیا جس نے ملاوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مابین ایک باطل جڑت بنائی۔ 1949 میں ’’ویش زلمیان ‘‘کی بنیاد رکھی گئی، جس کے کارکنوں میں میر اکبر خیبر، نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل بھی شامل تھے جس کا نتیجہ ہمیں انقلاب کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
بونیر سے تعلق رکھنے والے کامریڈ اعجاز نے کہا کہ ثور انقلاب آج بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ 39سال پہلے تھا کیونکہ اس نے افغانستان سے فرسودہ رواجوں کا خاتمہ کیا اور ایک سرخ سویرے کی نوید دی جو کہ اس خطے کا ایک درخشاں باب ہے۔ محمد ریاض نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک ترقی پسند تحریک کو امریکی سامراج نے کچل ڈالا جو کہ اس خطے کو سوشلسٹ بنیادوں پر کھڑا کر سکتا تھا۔ امریکی سامراج کا وہ گھناونا کردار اس خطے کے محنت کش ابھی تک نہیں بھولے۔ سلیمان نے افغانستان کے موجودہ حالات پر بحث کی اور کہا کہ امریکی سامراج، افغانستان میں امن لانے میں ناکام ہوا ہے اور ابھی تک افغانستان پر بم پھینکے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن لانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے محنت کشوں کا انقلاب۔
آخر میں اسفندیارشنواری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ثور انقلاب افغانستان اور اس خطے کی ضرورت تھی کیونکہ صرف 1971کے قحط میں 5 لاکھ لوگ بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ ثور انقلاب قطعاً کوئی فوجی کو نہیں تھا بلکہ افغان محنت کشوں کی انقلابی خلق پارٹی نے فوجی کیڈرز کے ذریعے یہ انقلاب برپا کیا۔ ایک پارٹی، جسے 90 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہو، وہ کیسے فوجی کو کر سکتی ہے۔ ثور انقلاب نے ایک ریڈیکل پروگرام کے ذریعے تعلیم اور صحت کو مفت قرار دیا اور خطے کو تاریخی جہالت سے آزاد کرانے کی کوشش کی جسے امریکہ اور اس کی گماشتہ ریاست پاکستان نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔