ہمیں لینن کی کتاب”ریاست اور انقلاب“ کیوں پڑھنی چاہیے

|تحریر: آرچی واٹسن، ترجمہ: ساحر رانا|

اگست 1917ء میں لینن نے اپنی اہم ترین تصانیف میں سے ایک ”ریاست اور انقلاب“ کو لکھنے کا کا م سر انجام دیا۔ یہ کتاب انقلاب(بالشویک انقلاب1917 ء) سے پہلے لکھی گئی اور مزدوروں کو تربیت دینے اور منظم کرنے میں کافی کارآمدثابت ہوئی۔ کمیونسٹ پراپیگینڈا کو پھیلانا ہمیشہ سے انقلابیوں کا بنیادی کام رہا ہے۔اسی لیے مزدوروں کو مارکسزم کے نظریات سے واقف کرانے کیلئے کمیونسٹ مینی فیسٹو کو خفیہ راستوں سے سرحدوں کے پار اور فیکٹریوں میں پہنچایا گیا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

مارکسسٹوں کیلئے ریاست کے کردار کا سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست کے کردار کو سمجھے بغیر ہم کبھی بھی طبقاتی سماج سے چھٹکارے کا حتمی مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ ریاست بذاتِ خود سماج میں طبقات کے ابھرنے سے ہی وجود میں آئی۔

انقلاب کی ہنگامی صورتِ حال میں لینن نے بالشویکوں کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کتاب کو لکھنے کیلئے بھی وقت نکالا۔ تمام انقلابی لینن کے اس کام کو بہت سراہتے ہیں،لیکن یہ تعجب بھی بجا طور پہ درست ہے کہ لینن نے انقلاب کی ہنگامی صورتِ حال میں اس کتاب کو لکھنا کیوں ضروری سمجھا۔

لینن کو مارکسی تھیوری اور طریقہ کار پر دسترس حاصل تھی۔ اگست 1917 ء میں روس میں ایک بنیادی سوال یہ تھا کہ ریاست کا کردار کیا ہے اور انقلابیوں کا اسکے بارے میں نقطۂ نظر کیا ہونا چاہیے۔ اس لیے ”ریاست اور انقلاب“ نہ صرف آج کے دور میں اہمیت کی حامل ہے بلکہ روس کے انقلاب کی تعمیر میں بھی اس کا ایک بنیادی کردار تھا۔

ریاست کا کردار

سب سے پہلے لینن ریاست کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ (ریاست) طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ دو بڑے طبقات کی محض موجودگی سماج کو چلانے کیلئے ریاست کی ضرورت کو ابھارتی ہے۔

تاریخ میں حکمران طبقہ ہمیشہ اقلیت میں رہا ہے، مطلب کہ اکثریت کی جمہوریت کو دبا ئے رکھنے کی ضرورت موجود رہی ہے۔ یہ اس نظام کا خاصہ ہے جس میں ایک چھوٹااور طفیلی طبقہ سماج کی ساری دولت اور ذرائع پر قابض ہوتا ہے۔ اس طبقے کے مفادات کو پورا کرنے اور طبقاتی نظام کو برقرار رکھنے کیلئے ریاست کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان دو طبقات کے درمیان خلیج انقلاب کی وجہ بنتی ہے۔طبقاتی سماج کی سادہ حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقہ اقلیت میں ہے، اس کی حکمرانی کا انحصار اس کی عددی قوت پر نہیں بلکہ اکثریت کی مزاحمت کو روکنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔

لینن ریاست کو مسلح جتھوں کے مجموئے کے طور پر بیان کرتا ہے۔اس کو آج پولیس اور فوج کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بہار 2020 ء میں بی ایل ایم(بلیک لائیوز میٹر) کی تحریک میں احتجاج کرنے والوں نے پولیس کے خلاف ’تم کس کیلئے کام کرتے ہو؟، تم کس کی حفاظت کرتے ہو؟‘ جیسے نعرے لگائے۔ لاشعوری طور پر یہ لینن کے اسی بنیادی نقطۂ نظر کا ہی مظاہرہ ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک جھوٹ ہے کہ ریاست اور حکومت جیسے ادارے ہمارے(عام لوگوں کے) تحفظ کیلئے قائم ہیں۔ بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش کے واقعات اس جھوٹ کا پردہ فاش کر دیتے ہیں، جیسا پچھلے سال بلیک لائیوز میٹر کی تحریک میں دیکھا گیا۔ حتمی تجزیے میں ریاست کا کام نجی ملکیت اور حکمران طبقے کے مفادات کا دفاع کرنا ہے۔

ہم اسے کیسے بدل سکتے ہیں

لینن بیان کرتا ہے کہ چونکہ ریاست کے مفادت پرولتاریہ کے مفادات کے ساتھ کھلے تضاد میں ہوتے ہیں اس لیے ریاست کو جدوجہد کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

ریاست کے بارے میں لینن کے موقف کا اہم پہلو ریاست کے ”تحلیل ہونے‘ کا تصور ہے۔ یہ اقتباس براہِ راست اینگلز کے ریاست پر نقطۂ نظر سے لیا گیا ہے۔ لینن نے اس امر کی مکمل وضاحت پیش کی کیونکہ اس وقت بہت سے نام نہاد ”مارکسسٹ“ یہ تجویز کر رہے تھے کہ اینگلز کے مطابق ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ خود ہی ”تحلیل ہو سکتی“ ہے۔

لینن فیصلہ کن طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ اینگلز کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔ایک سرمایہ دارانہ ریاست کبھی بھی خود بخود ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ یہ وہ نتیجہ ہے جو مارکس نے 1871 ء کے پیرس کمیون سے اخذ کیا تھا۔ البتہ ایک مزدور ریاست، سوشلزم کی تعمیر کے دوران، طبقاتی سماج کے تحلیل ہو نے کے ساتھ ختم ہوسکتی ہے۔

لینن کی یہ بات اگرچہ کچھ سوالات کو جنم دیتی ہے، جیسا کہ، اگر ریاست نے بہر طور ختم ہونا ہی ہے تو انقلاب کی کیا ضرورت ہے؟یہ مسئلہ سیاسی اصلاحات سے حل کیوں نہیں ہوسکتا؟

اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل سیاسی اصلاحات کے ذریعے ناممکن ہے کیونکہ یہ کام حکومت سر انجام دیتی ہے جو حکمران طبقے کا ہی ایک ادارہ ہے۔ ہم اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے اپنے دشمن پر اعتبار نہیں کرسکتے۔

لینن کی”ریاست اور انقلاب“ آج کے دور میں سیاسی جدوجہد کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرا سکتے، ہم حکمران طبقے کے کسی بھی ادارے کو باقی رہنے نہیں دے سکتے۔ اگر ہم پولیس کے تشدد،جبری قید وبند اور جنگ و جبر کو ختم کرنے کی تھوڑی سی بھی امید رکھتے ہیں تو ہمیں سرمایہ دارانہ ریاست کی پوری مشینری کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ آخر میں لینن یہی کہتا ہے کہ ہمیں اس دنیا کی باگ ڈور پرولتاریہ(مزدور طبقے) کے ہاتھ میں دینا ہوگی۔

جدوجہد کا حصہ بننے اور مزید سیکھنے کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کلا حصہ بنیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.