|تحریر: عمر ریاض|
23 مارچ کا دن پاکستان میں ”قرارداد پاکستان“ کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے، کیوں کہ حکمرانوں کے ترتیب دیے گئے نصاب سے لے کر تمام ریاستی میڈیا اور دیگر ذرائع صرف حکمرانوں کی تاریخ کا ہی پرچار کرتے ہیں۔ تاکہ حکمران طبقے کی جھوٹی تاریخ کو لوگوں کے شعور پر مسلط رکھا جا سکے اور ان کے اپنے طبقے کی حقیقی تاریخ کو چھپایا جا سکے۔ حکمران طبقے کی تاریخ کی نسبت محنت کش طبقے کی ساری تاریخ حکمران طبقے کے خلاف بغاوتوں اور انقلابات سے بھری پڑی ہے، اس لیے اگر عام لوگ یا محنت کش طبقہ اپنی حقیقی تاریخ سے واقف ہوتے ہیں تو کہیں وہ اس ”جرم“ (حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے) کو دہرانا نہ شروع کر دیں۔ لیکن درحقیقت یہ حکمران طبقے کی غلط فہمی ہے کہ محنت کش طبقے کی تاریخ کو چھپا کر اسکو بغاوتوں اورانقلابات سے روکا جا سکتا ہے۔
”تم ایک شحص کو تو مار سکتے ہو لیکن اس کے آدرشوں کو نہیں مار سکتے“ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک عظیم انقلابی نے کہے تھے جس کا نام بھگت سنگھ تھا، جسے آج سے 89 سال پہلے برطانوی سامراج نے اس کے دو انقلابی ساتھیوں (راج گرو اور سکھ دیو) سمیت لاہور میں پھانسی دے دی تھی۔ پھانسی کے وقت بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی عمر 23 سال تھی۔ اتنی کم عمری میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے برصغیر کی برطانوی راج سے آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر کے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں ایک لازوال قربانی دی بلکہ مستقبل کے انقلابیوں کیلئے ایک مثال قائم کرتے ہوئے ان پر ایک قرض بھی باقی چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے آج کا دن ہمارے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ برطانوی سامراج نے بھگت سنگھ کے جسم کو تو لٹکا دیا تھا، لیکن اس کے نظریات کو نہیں مار سکے اور اس کے الفاظ کو تاریخ نے سچ ثابت کر دیا۔ آج پوری دنیا میں بھگت سنگھ کے نظریات (مارکسی نظریات) ایک تاریخی سچائی کے طور پر سامنے آرہے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
بھگت سنگھ کا تعلق لائلپور (موجودہ فیصل آباد) سے تھا۔ ابتدائی طورپروہ گاندھی کی عدم تعاون تحریک سے متاثر تھا لیکن گاندھی کی برطانوی سامراج کی کاسہ لیسی اور مصالحتی پالیسیوں کی وجہ سے بہت جلد اس سے مایوس ہو گیا اور بعد میں کالج کے وقتوں میں ہندوہستان ریپیبلکن ایسوسی ایشن کا حصہ بنا، جو ماؤ زے تنگ کے طریقہ کار سے متاثر ہو کر برطانوی سامراج کے خلاف مسلح جہدوجہد کر رہی تھی۔ لیکن مسلح جہدوجہد کے غلط طریقہ کار کی محدودیت کی وجہ سے چند ہی سالوں میں بھگت سنگھ کو احساس ہو گیا کہ یہ طریقہ کار آزادی کے حصول کا ضامن نہیں ہے اور بھگت سنگھ نے عوامی جہدوجہد کا طریقہ کار اپنانا شروع کیا۔ پارٹی کی حکمت عملی کو بدلنے کی کوشش کی اور پارٹی کوواضح سوشلسٹ نظریات فراہم کیے، جنہیں ہندوہستان سوشلسٹ ریپیبلکن ایسوسی ایشن کے نئے پارٹی کے نام میں واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔
مارکسی نظریات کی سمجھ بوجھ کی بدولت بھگت سنگھ یہ ادراک حاصل کر چکا تھا کہ واضح نظریات کے بغیر خالی خولی آزادی کا مطلب محض حکمرانی کی آزادی ہے، جس کا مطلب گورے حکمرانوں کی جگہ کالے حکمرانوں کو بٹھا لینا ہے، جس سے سماج کی اکثریتی محنت کش عوام کی زندگیوں میں کسی بھی قسم کا بدلاؤ نہیں آئے گا۔ اس لیے اس نے اپنی جہدوجہد کا رخ محنت کش طبقے کی طرف موڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کا راستہ اپنایا، تاکہ برطانوی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جا سکے جس میں سرمائے کی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے ایک غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھی جا ئے۔
بھگت سنگھ کی پھانسی کے ساتھ برصغیر کی آزادی کی حقیقی تحریک کو بہت بڑا دھجکا لگا، بہر حال تقسیم کے گھناؤنے خونی جرم کے بعد تک دونوں ریاستوں میں یہ تحریک کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ ایک سائنسی پروگرام رکھنے والی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوتی رہی ہے۔ بالآخر، مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے نتیجے میں جن نتائج کا خدشہ بھگت سنگھ کو تھا، وہ دونوں ریاستوں میں عیاں ہوتے گئے اور آج 89 سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان اور ہندوہستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بد ترین سلوک رواں رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دونوں ریاستوں پر گوروں کی جگہ بھورے حکمران تو مسلط ہو گئے ہیں لیکن اکثریتی محنت کش طبقہ شدید استحصال اور جبر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دونوں ریاستوں کا حکمران طبقہ توتقسیم کے نتیجے میں آزاد ہوگیا لیکن محنت کش طبقہ آج بھی عالمی سرمائے کی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
بھگت سنگھ کے نظریات مارکسزم کے عالمی نظریات تھے اور اس کی جہدوجہد ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی جہدوجہد تھی۔ جب تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے تب تک بھگت سنگھ کی جہدوجہد اور نظریات زندہ رہیں گے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام جس عالمی بحران کا شکار ہے، یہ سرمایہ داری کا تاریخی نامیاتی بحران (Organic Crisis) ہے، جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کو پوری دنیا میں کرونا وائرس سے نبردآزما ہونے کی نا اہلیت کی شکل میں واضح کر دیا ہے۔ آج بالعموم پوری دنیا میں اور بالخصوص اس پورے خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور ظلم وجبر کے خلاف عوامی تحریکیں جنم لے چکی ہیں، جن میں مستقبل کے نظریات کی پیاس واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی جہدوجہد کو لے کر آگے بڑھتے ہوئے اس خطے میں ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے کام کو آگے بڑھانا اور یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کے فریضے کی تکمیل کرنا آج کے نوجوانوں پر فرض ہے۔ صرف اسی صورت میں ہی ہم بھگت سنگھ کی جہدوجہد اور اس کے نظریات کے حقیقی وارث ہو سکتے ہیں۔
بھگت سنگھ، امر رہے!
سکھ دیو، امر رہے!
راج گرو، امر رہے!
جب تک جنتا بھوکی ہے، یہ آزادی جھوٹی ہے!
سوشلسٹ انقلاب۔۔۔ زندہ باد!
مزید تحریریں: