|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،بلوچستان|
بلوچستان کے ضلع پنجگور میں سیکورٹی فورسز (فرنٹیئر کور) نے ایک نوجوان کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ مگر عوام کے انتہائی جرات مندانہ احتجاجی مظاہرے کے زیرِ اثر نوجوان کو مقامی پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ بعد ازاں پولیس نے نوجوان شاہ بیک داد کو لواحقین کے حوالے کردیا۔یہ انتہائی حوصلہ افزا عمل ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس جرات مندانہ احتجاجی مظاہرے کے تمام شرکاء کو سلام پیش کرتا ہے اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق آج صبح سیکیورٹی فورسز کے اہلکار پنجگور کی ایک مقامی مسافر کوچ سے ایک طالب علم کو اغوا کرکے اپنے ہمراہ لے گئے تھے جس کے بعد بس مسافروں نے پنجگور کے علاقے وشبود میں احتجاجاً دھرنا دے دیا۔عوامی رد عمل کے بعد فرنٹیر کور نے نوجوان کو مقامی پولیس کے حوالے کردیا تھا، سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج میں نوجوان کو ایف سی کیمپ سے باہر لیکر آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر نوجوان کے اغواکیے جانے کی خبر کے بعد سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، جس میں مقامی افراد نے ایف سی چیک پوسٹ کے قریب روڈ بلاک کر دیا۔
بس میں سوار مسافروں کے مطابق آج صبح بس کو پنجگور کی حدود میں ایف سی چیک پوسٹ پر روک لیا گیا اور فورسز اہلکار بس میں داخل ہوکر ایک مسافر کو تشدد کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے جسکی شناخت شاہ بیگ داد ولد ولی داد کے نام سے ہوئی جو شاپک کیچ کا رہائشی بتایا جاتا ہے واقعہ کے بعد دیگر مسافروں نے بس سے اتر کر مکران، کوئٹہ شاہراہ پر احتجاج کرتے ہوئے ٹریفک کی روانی معطل کر دی۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں مسافر بسوں سے کئی مرتبہ طلبہ اور سیاسی کارکنوں کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے اور بعد ازاں انکی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ رواں سال کے ابتداء سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔اور حال ہی میں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد سے خاص طور پر عام بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ شروع کر دی گئی ہے اور لاہور سمیت ملک کے دوسرے شہروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیاں جاری ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس جہاں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتا ہے وہیں ریاست کی طرف سے اس واقع کو بنیاد بنا کر بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کی بھی بھرپور مذمت کرتاہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی جدوجہد ہی بلوچستان کے مسئلے کے لیے راہ نجات ہے، جس کی ایک مثال آج ہمیں دیکھنے کوملی کے کیسے ایک عوامی ردِ عمل نے سیکیورٹی فورسز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ بلوچستان کے مسئلے پر سیاسی جدوجہد کو حتمی طور پر نہ صرف پاکستان کے مظلوم قومیتوں سے جوڑنے کی ضرورت ہے، بلکہ پاکستان بھر کے محنت کش طبقے سے جوڑنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس بنیاد پر ہم بلوچستان سمیت ملک بھر میں جاری قومی، مذہبی اور صنفی جبر سمیت جبر کی تمام اقسام کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں جبر کی تمام اقسام کا حقیقی اور مستقل بنیادوں پر خاتمہ محض سرمایہ دارانہ نظام، جو جبر کی تمام اشکال کی بنیاد ہے، کا خاتمہ کر کے ہی ممکن ہے۔ اس انسان دشمن نظام کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے، جس کے لیے جدوجہد کرنا ہر ذی شعور انسان کا فرض ہے۔ ہم ہر قوم، زبان اور مذہب کی تفریق سے بالا تر ہوکر تمام نوجوانوں کو اس جدوجہد میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں۔