|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
6 مئی 2019ء بروز سوموار جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے بغداد کیمپس میں اندوہ ناک حادثہ پیش آیا۔ انجینئرنگ کینٹین کے سامنے ایک فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی نے کیفے گارڈن کے ڈیلیوری بوائے کو روند ڈالا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈیلیوری بوائے موقع پر وفات پاگیا۔ جبکہ یہ معلوم ہوا کے اس محنت کش کے چیتھڑے اُڑا دینے والا امیرزادہ جامعہ کا طالبعلم ہی نہیں بلکہ چیف سکیورٹی انچارج میجر(ر) اعجاز کا کوئی جانکار تھا جس کو اس نے واقع کے فوری بعد فرار کرادیا۔ اس پر ظلم یہ کہ نہ صرف جامعہ کی ایمبولینس آدھا گھنٹہ تاخیر سے آئی بلکہ ابھی تک اس حادثے کے خلاف کوئی قانونی کاروائی تک نہیں کی گئی اور اس واقع کو خاموشی کیساتھ منظر نامے سے غائب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جامعہ اسلامیہ جس کا ماحول کسی زندان سے کم نہیں جگہ جگہ سکیورٹی گارڈوں کے ٹولے دندناتے پھرتے پائے جاتے ہیں جیسے کہ وہاں طلبہ نہیں بلکہ خطرناک دہشتگرد موجود ہیں جن کا وہ پہرہ دے رہے ہیں اور نہایت نازیبہ طریقے سے طلباء و طالبات کی تذلیل وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے خلاف اگر آواز اُٹھائیں تو پروفیسران مثلِ فراعین اپنے آپ کو خدا مانتے ہوئے طلبہ کے مستقبل تک کو تاریک کرنے کااختیار رکھتے اور استعمال کرتے پائے جاتے ہیں۔ جامعہ کا دوسرا اہم مسئلہ پارکنگ کا ہے جہاں عام طلبہ کسی صورت بھی اپنی سواری مین پارکنگ سے آگے لے جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے مگر جامعہ کا یہ ماحول ہے کہ رئیس زادے اور انتظامیہ کے پالتو تنظیمی لونڈے طُرم خان بنے اپنی گاڑیاں اور سکوٹریاں شاں شاں کرتے ہوئے دوڑاتے پائے جاتے ہیں۔ ان کی یہ فراٹے بھرتی گاڑیاں عام طلبہ کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ جب جامعہ کے اندر عام طلبہ اپنی سواری پر سفر نہیں کرسکتے تو کس بنا پر ان غنڈہ گرد لوگوں کو دندناتے پھرنے کی آزادی ہے اور وہ عام طلبہ اور محنت کشوں کو کُچلنے کا حق رکھتے ہیں؟
ہم عام طلبہ کے توسط سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس قتل کے خلاف قانونی کروائی ہو۔ ہم سمجھتے ہیں یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل ہے جو اس قاتل طبقاتی سماج کے سر جاتا ہے جس میں امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہیں وہیں اس قتل میں برابر کی شریک یونیورسٹی انتظامیہ ہے جن کی وجہ سے زخمی حالت میں وہ شخص آدھے گھنٹے سے زیادہ سڑک کنارے بے یار و مددگار پڑا رہا جبکہ ہسپتال پیدل 5 منٹ کی مسافت پر ہے۔ اگر بروقت طبی امداد میسر ہوتی تو جان بچائی جاسکتی تھی۔ چیف سکیورٹی انچارج میجر(ر) اعجاز اس قتل میں برابر کا شریک ہے جس نے ایک آؤٹ سائیڈر کی انٹری کروائی اور بعد میں فرار کروایا جبکہ وہ عام طلبہ کو گالیاں دینا اپنا فرض سمجھتا ہے مگر ان غنڈہ گرد عناصر کے آگے رال ٹپکاتا ہے اور تلوے چاٹتے پایا جاتاہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چیف سکیورٹی انچارج میجر(ر) اعجاز فوری استعفیٰ دے اور قاتلوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم (یونیورسٹی کے تمام طلبہ) مل کر یونیورسٹی کو بند کر دیں گے اور ایسا کرنا قانونی اور اخلاقی دونوں حوالوں سے بالکل جائز ہوگا۔ جس معاشرے میں انصاف نہ ملے وہاں چیخنا فرض بن جاتا ہے اور کھلی ناانصافی پر خاموش رہنا گناہ!
اگر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو خاموش کرانے کیلئے کسی بھی قسم کی دھمکی دی گئی، ڈرایا گیا یا اس طرح کے دیگر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے تو پروگریسو یوتھ الائنس ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کرے گی اور کشمیر سے لے کر کراچی تک کے طلبہ کو اس کھلی بدمعاشی اور ناانصافی کے خلاف لڑنے کیلئے سڑکوں پر لائے گی۔
جینا ہے تو، لڑنا ہوگا!
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!