فلسفہ کیوں پڑھنا چاہیے؟

|تحریر: سلمیٰ|

why should we study philosophy

اکثر یہ سوال سننے میں آتا ہے کہ فلسفہ کیوں پڑھنا چاہیے۔ فلسفہ پڑھ کر کیا حاصل ہو جانا ہے یا کون سا تیر مار لینا ہے۔ اول تو جس سماج میں ہم رہتے ہیں وہاں فلسفہ پڑھنے والے کو تمسخر کا نشانہ بنانا عام سی بات ہے، اسے خبطی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارا موضوع یہ ہے کہ فلسفہ کیوں پڑھنا چاہیے، فلسفہ پڑھنے والے کو فلسفہ پڑھنے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کا جائزہ بھی لیں گے کہ فلسفے کی جانب عوام کے منفی رویے کی کیا وجوہات ہیں اور ان وجوہات میں کس کا مفاد ہے۔ آج ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں بچپن ہی سے انسان کی ریزن (reason) کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہر بات جو انسان بچپن میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے غیر رسمی تعلیم کے ذریعے سیکھے بغیر سوچے سمجھے عقیدے کی طرح ساری زندگی اس پر عمل کرتا رہے۔ ان سب کے بعد جب تعلیمی اداروں میں رسمی تعلیم کی باری آتی ہے تو وہاں اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ مل کر یہی کام بخوبی سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ طلبہ کو ان کے تعلیمی مسائل پر سوال اٹھانے پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں، فیسوں میں بڑھتے اضافے،ہراسمنٹ اور اپنے دیگر مسائل پر بات نہ کریں۔ طلبہ کی چیزوں کو پررکھنے اور ان پر سوچنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاتا ہے۔ جو کچھ پڑھایا جا رہا ہو اسے طوطوں کی طرح رٹ کر میرٹ پر آئیں اور آگے چلتے بنیں، بس!

ہم اپنے ارد گرد انسانوں کی اکثریت کو بے شمار مسائل سے دو چار دیکھتے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگا علاج، مہنگی تعلیم، غربت، جنگ اور دوسرے مسائل جو دن بہ دن کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کی اکثریت کو ان مسائل میں مسلسل پستا دیکھ کر ذہن میں سینکڑوں سوال اٹھتے ہیں کہ کیا یہ اکثریت ہمیشہ سے ان مسائل میں گھری زندگی گزار رہی ہے اور کیا یہ سب ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا؟ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیوں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے؟ کیا آج انسان ویسی ہی زندگی گزار رہا ہے جیسی زندگی کی وہ خواہش کرتا ہے؟ کیا اس دنیا میں ایسا کوئی انسان ہے جو اس بات کی خواہش کرتا ہو کہ وہ بے روزگار ہو جائے؟ کیا ایسا کوئی انسان ہے جو اس بات سے مطمئن ہو کہ وہ اور اس کی اولاد قابل علاج بیماریوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے مر جائیں کہ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہ ہوں؟ ایسا کوئی انسان ہے جو چاہے کہ اس کے بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں؟ کیا ایسا کوئی انسان ہے جو یہ چاہے کہ اس پر جنگیں مسلط کی جائیں؟ یقینا ایسا کوئی انسان اس کرہ ارض پر وجود نہیں رکھتا۔ تو پھر کیوں آج انسان ان محرومیوں اور اذیتوں میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور ان سب کا کوئی حل ہے؟ اگر کوئی حل ہے تو کیا ہے؟ کس طرح بنی نوع انسان ان تکلیفوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے؟

Poverty and class difference

جب ہم ان مسائل کے حل کے لیے میڈیاکا رخ کرتے ہیں تو وہاں براجمان یہ بڑے بڑے ”دانشور“ اپنی دانشوری جھاڑتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی نصاب، جسے پڑھانے کا یہاں کاروبار کیا جا رہا ہے، کی طرف جائیں تو جگہ جگہ ہمیں صبر و شکر کرنے کا پاٹ پڑھایا جاتا ہے۔ انسانوں کے امیر اور غریب ہونے کو ان کا مقدر ٹھہرایا جاتا ہے۔ کیا جو کچھ ہمیں پڑھایا جاتا ہے، دکھایا جاتا ہے، بتایا جاتا ہے، وہ سب سچ ہے؟ اگر وہ سب سچ نہیں ہے تو پھر سچ کیا ہے؟ سچ کو کیوں چھپایا جا رہاہے؟ کون چھپا رہا ہے اور کیوں؟ ان سب باتوں کا جواب ہمیں فلسفہ دیتا ہے کہ کس طرح چیزوں کے ظاہر سے (جو دکھایا جا رہا ہے)، ان کے ماہیت (چیزیں اپنی اصل میں جو ہیں) کو پکڑا جائے۔ فلسفے کا کام سچائی کو قابل رساں بنانا ہے تاکہ سچائی عوام سے ڈھکی چھپی نہ رہے۔

فلسفہ ہمیں چیزوں کو پرکھنے، دیکھنے، سوچنے اور جاننے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ جب انسان فلسفے کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے تو وہ اپنے گرد ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچنا، تنقید کرنا اور سوال کرنا بھی سیکھ جاتا ہے۔ وہ جھوٹے اور گھسے پھٹے اعتقادات سے اپنا پیچھا چھڑا کر سچائی کے علم کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ انسان جان لیتا ہے کہ امیر یا غریب ہونا کوئی تقدیر نہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ سماج کی طبقاتی تقسیم ہے۔ وہ کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کون سی بتی اسے کس جانب لے جا رہی ہے یا لے کر جا سکتی ہے۔

Controlled minds

فلسفہ طبقاتی مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم سرمایہ دارنہ نظام میں رہ رہے ہیں جو سماج کو دو طبقوں میں تقسیم کرتا ہے، مزدور طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ۔ فلسفہ بتاتا ہے کہ کس طرح اس نظام میں ایک طبقے کا مفاد دوسرے طبقے کے نقصان کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح یہ نظام انسان کی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے کو اپنا غلام بنا کر رکھتا ہے۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی طلبہ سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافہ کرنے کے لیے اپنی قوت محنت بیچتے ہیں۔ یہاں اگر مزدور بیمار ہو جائے تو وہ ڈاکٹر کے پاس اپنے لیے شاید اتنا نہیں جاتا جتنا وہ اس مقصد کے لیے جاتا ہے کہ اگر صحت یاب نہ ہوا تو مزدوری کرنے نہیں جا پائے گا اور اگر مزدوری کرنے نہیں جائے گا تواس کا مالک اسے کام سے فارغ کر دے گا اور مزدور کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پر جائے گا۔ فلسفہ اس نظام کا غلیظ چہرہ ہم پر آشکار کرتا ہے۔

یہاں کا حکمران طبقہ اپنے مفاد کے لیے عوام الناس میں عقل دشمن نظریات پھیلانے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے اس کے لیے یہاں کا غلام میڈیا اور نام نہاد دانشور جو اپنے انفرادی مفاد کے لیے اجتماعیت کے مفادات کا سودا کرتے ہیں، جو اپنے قلم کا سودا کرتے ہیں، ہر وقت حکمران طبقے کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ روسو اپنی کتاب ”اعترافات (Confessions)“ میں لکھتا ہے کہ ”ایک لالچی قلم سے عظیم تحریر کا لکھے جانا کبھی بھی ممکن نہیں۔“ ایک عظیم تحریر یقینا وہی ہو گی جو انسان دوست ہو اور انسان کے مسائل اور اس کے حقیقی اور مادی حل پر بات کرے۔ حکمران طبقہ رجعت پرست نظریات کے ذریعے غیر سائنسی تصور کائنات کی ترویج کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ عوام آنکھیں بند کر کے اس کے مطیع بن جائیں۔ عوام الناس کو بس نیک بن جانا چاہیے، اچھی اچھی ’پازیٹو‘ قسم کی باتیں کرنی چاہئیں۔ اگلے جہاں جا کر اعلیٰ و ارفع زندگی کے مزے لوٹنے کے چکر میں اپنی حقیقی زندگی کے تمام مسائل کو بھلا کر صبر و شکر کی زندگی بسر کرے۔ جبکہ حکمران طبقہ اسی عوام کو مونڈھے اور اسی عوام کی محنت سے پیدا ہونے والی دولت پر عیاشیاں کرے۔ حکمرانوں کا پالتو ”دانشور“ طبقہ اس نظام کی شان میں قصیدے پڑھتا نہیں تھکتا اور موجودہ نظام کو ناقابل تغیر اور ابدی نظام قرار دیتا ہے۔

فلسفہ صرف اسی سوال کا جواب نہیں دیتا کہ دنیا کیا ہے۔ فلسفہ اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے کہ دنیا کی جانب ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور کس طرح اس کی تعمیر نو کرنی چاہیے۔ مارکس کے الفاظ میں کہ ”فلسفیوں نے دنیا کی مختلف طریقوں سے وضاحت کی ہے۔ لیکن اصل کام اسے تبدیل کرنا ہے۔“ فلسفہ ہمارے مقصد اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہماری راہ کا تعین کرتا ہے۔ آج مارکسسٹ۔ لیننسٹ (Marxist-Leninist) فلسفہ ہی اس دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے بنی نوع انسان کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ ایک ایسا فلسفہ جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ انسان اس کائنات کے اسرار و رموز اور اس میں مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کو جان سکتا ہے۔ آج انسان اپنی عقل اور محنت سے اس پوری کائنات کو اقلیت کے چنگل سے آزاد کروا کر اسے اکثریت کے لیے نچھاور کر سکتا ہے۔ وہ اکثریت جو اپنی قوت محنت سے پوری دنیا کا نظام چلاتی ہے، جس کی حرکت کے بغیر اس دنیا کا پہیہ جام ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ نظام اور اس کے دلال حکمران انسانیت کو ہمیشہ کے لیے بے بسی اور رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن سچائی کو جتنا دبایا جائے وہ اتنے ہی زور و شور سے اپنا اظہار کرنے کا راستہ بناتی ہے۔ آج یہ بات بالکل واضح ہے کہ موجودہ نظام اپنے دن پورے کر چکا ہے اور اب اس میں انسانوں کے مسائل حل کرنے کی بالکل بھی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایک سوشلسٹ نظام کے تحت ہی انسانوں کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا مزدور طبقہ اور طلبہ ہی مل کر اس نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مارکسسٹ کسی عقیدے کے بنا پر نہیں بلکہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام دونوں کی سائنسی بنیادوں پر پڑتال کر کے ہی سوشلزم کے انسان دوست سماج ہونے اور سرمایہ دارانہ نظام کے انسان دشمن نظام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لینن نے ہمیں بتایا کہ ”کمیونزم ان نتائج پر اندھا دھند عقیدہ نہیں ہے جو کتابوں سے اخذ کیے گئے ہوں بلکہ وہ خیالات ہیں جن تک آدمی، پڑھی ہوئی چیز کو اچھی طرح تول کر اور اس پر غور کر کے، نتائج کا ثبوتوں سے مقابلہ کر کے اور اپنے آپ کو مطمئن کر کے کہ نتائج بلا شبہ ثابت ہو چکے ہیں، پہنچتا ہے۔“ مارکسزم کا فلسفہ حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد میں طلبہ اور مزدور طبقے کا نظریاتی ہتھیار ہے۔ جھوٹ، جسے رجعت پرست طبقات پھیلاتے ہیں، عوام الناس کو مجہول اور مطیع غلام بناتا ہے۔ اس لیے جھوٹ کے خلاف سچائی کے لیے، عقیدے کے خلاف علم کے لیے، مارکس ازم طبقاتی جدوجہد کا نظریاتی ہتھیار ہے۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.