|تحریر: مجید پنھور|
آج تک کی تمام انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ (کارل مارکس)
ہزاروں سال کی معلوم انسانی تہذیب کی تاریخ طبقاتی کشمکش سے بھری پڑی ہے، یعنی کہ اس میں کئی بار حکمران طبقے اور محنت کش طبقے میں جنگیں ہوئی ہیں۔ یہ جنگیں ویسی نہیں تھیں جیسی 1965ء میں پاکستان اور انڈیا کی ہوئی بلکہ یہ طبقاتی جنگیں تھیں، جنہیں انقلاب کہا جاتا ہے۔ اب چونکہ پچھلی چند ہزار سالہ طبقاتی سماج کی تاریخ میں سماج پر حکمرانی مٹھی بھر حکمران طبقے کی رہی ہے لہٰذا تاریخ کو بھی حکمرانوں نے ہی اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دیا ہے۔ اس جھوٹی تاریخ میں ان طبقاتی جنگوں یا انقلابات کا اول تو ذکر ہی نہیں ملتا اور اگر مجبوراً ذکر کرنا بھی پڑ جائے تو اسے اپنے مفادات کے تحت لکھا جاتا ہے۔ فلموں، ڈراموں، اخبارات، یونیورسٹیوں، مندروں، مسجدوں، چرچوں، لائبریریوں میں یہی جھوٹی تاریخ اور جھوٹا اور انسان دشمن علم ہی ہمیں ملتا ہے (اگرچہ اس میں مستثنات موجود ہوتی ہیں)۔
اس تحریر میں ہم محنت کش طبقے کے ایک ایسے کردار کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے جس نے حکمرانوں کو للکارا تھا اور غلاموں کی بغاوت کی قیادت کی تھی۔ اس کردار کا نام سپارٹیکس ہے۔ سپارٹیکس کا دور غلامی کا دور تھا۔ اس دور میں غلام دن رات محنت کرتے تھے اور آقا اس محنت کا پھل کھاتے تھے۔ اس سے پہلے ہزاروں سال تک انسان ایک ایسے سماج میں رہا تھا جس میں کوئی آقا اور غلام نہیں تھا، حتیٰ کہ نجی ملکیت (Private Property) کا بھی وجود نہیں تھا، لہٰذا سماج طبقات میں تقسیم بھی نہیں تھا۔ اس دور کو مارکس نے قدیم کمیونزم (Primitive Communism) کا نام دیا۔ اس کے بعد آنے والا غلام داری نظام درحقیقت طبقاتی سماج کا آغاز تھا۔ اس دور میں غلاموں کی اپنی کوئی حیثیت اور شخصیت نہیں تھی۔ غلاموں کو اس دور میں ”انسٹرو مینٹا ووکیل (Instrumenta Vocale)“ کہا جاتا تھا، یعنی ”بولنے والے پرزے“۔
غلاموں کی یہ صورت حال دیکھ کر تو کوئی بھی شخص یقیناً یہی سوچے گا کہ یہ غلام تو ہمیشہ غلام ہی رہیں گے۔ بھلا جو لوگ اپنی سوچ ہی نہ رکھتے ہوں وہ بغاوت کیسے کر سکتے ہیں! مگر کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسانی سماج کے ارتقا کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ کوئی بھی نظام اور اس کے جابر اور طاقتور ترین حکمران تب تک ہی قائم رہ سکتے ہیں جب تک اس نظام میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ سماج کو بحیثیت مجموعی ترقی دے سکے۔ جب کوئی نظام ذرائع پیداوار (Means of Production) کو ترقی دینے کے رستے میں رکاوٹ بننا شروع ہو جائے، تو پھر طبقاتی لڑائی شدت اختیار کر جاتی ہے۔ یہی طبقاتی کشمکش پھر ایک وقت پر اس نظام کو نیست و نابود کر ڈالتی ہے اور ایک نئے نظام کی بنیاد بنتی ہے۔ اسی طبقاتی کشمکش میں ہی پھر محنت کش طبقے کی قیادت بھی نیچے سے اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ یعنی کوئی مسیحا آ کر محکوموں کو آزادی نہیں دلواتا بلکہ سماج میں جاری طبقاتی جنگ کے نتیجے میں ہی محنت کشوں کی قیادت بھی تشکیل پاتی ہے۔
سلطنت روم، جس کی بنیاد غلام داری تھی، میں ہمیں دیوہیکل غلام بغاوتیں نظر آتی ہیں جن میں سب سے اہم تیسری غلام جنگ (Third Servile War) ہے۔ سپارٹیکس تیسری غلام جنگ کا کمانڈر (یا ممکنہ طور پر اہم قائدین میں سے ایک) تھا۔
پہلی صدی عیسوی کی اس عظیم غلام بغاوت نے سلطنت روم کو اپنی بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ سپارٹیکس کی قیادت میں باغی گلیڈی ایٹرز کا ایک چھوٹا سا گروہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ کی فوج میں تبدیل ہو گیا۔ شمشیر زن یا گلیڈی ایٹرز ایسے غلاموں کو کہا جاتا تھا جو اپنے مالک کی تفریح کے لیے اپنے مخالف سے اس وقت تک لڑتا رہے جب تک مخالف کو جان سے مار نہ دے یا بصورت دیگر خود مر جائے۔ گلیڈی ایٹر کو یہ بتایا اور سکھایا جاتا تھا کہ جو مالک کے لیے بہتر لڑائی لڑ سکتا ہے اسے آزادی دی جاتی ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ کچھ گلیڈی ایٹرز نے فرار ہونے کی کوشش کی اور ناکامی کی صورت میں انہیں موت کی سزائیں دی گئیں تو ان کو یقین ہو گیا کہ مالکان کی جانب سے آزادی کا وعدہ محض ایک دھوکا ہے، اس لیے ان کو یہ آزادی خود سے لڑ کر لینی ہو گی۔
73ق م میں سپارٹیکس سمیت 74 گلیڈی ایٹرز، جن کو ایک دوسرے سے لڑوانے کے لیے ٹریننگ دی جاتی تھی، نے مل کر Capua (وہ جگہ جہاں غلاموں کی آپس میں لڑنے کی تیاری کروائی جاتی تھی) سے بھاگنے کا منصوبہ بنایا اور اس میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے مالکان کی تفریح کی خاطر اپنی جان دینے سے انکار کر دیا اور مقرر پہرے داروں کو مار کر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ دیہاتوں میں بھٹکتے غلام بھی جوق در جوق ان باغیوں کی فوج کا حصہ بنتے گئے۔ باغیوں نے غلاموں کی پوشاک اتار پھینک دی اور پیشہ ور سپاہیوں کے حفاظتی تہ (Armour) پہن لیے۔ یہ غلاموں کی سوچ میں آنے والا ایک انقلاب تھا جب غلاموں نے خود کی بطور انسان پہچان کی۔
سپارٹیکس کا تعلق تھریس (موجودہ بلغاریا) سے معلوم پڑتا ہے۔ سپارٹیکس کے علاوہ ہمیں کچھ اور نام جیسا کہ کریکسس، کاسٹس، گینیکس اور آئنوماس بھی ملتے ہیں جن کا تعلق گال (موجودہ فرانس) اور جرمانیا (موجودہ جرمنی) سے بتایا جاتا ہے، مگر ان کے بارے بہت ہی کم جانکاری ہمیں تاریخ میں ملتی ہے۔ تاریخ ہمیشہ فاتحین لکھتے ہیں اس لیے سپارٹیکس کی روح کو حکمران طبقات کی لکھی تاریخ میں سے جاننا بالکل ایسے ہی ہو گا جیسے انقلاب روس کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی کو روسی انقلاب کے دشمن سرمایہ دارانہ تاریخ دانوں کی لکھی کتابوں میں سے جاننا۔
سپارٹیکس کی قیادت میں برپا ہونے والی عظیم بغاوت ماضی بعید کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ سپارٹیکس کی جنگیں صلاحیتوں اور حکمت عملیوں سے غلام فوج نے رومن افواج کے ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لینا شروع کیا۔ وہ گھات لگا کر اپنے شکار کا انتظار کرتے اور موقع ملتے ہی اس پر جھپٹ پڑتے۔ ایک کے بعد دوسری کامیابی نے ان کا مورال بلند کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لاکھوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس دیوہیکل بغاوت کی بازگشت بعد میں آنے والی صدیوں تک سنائی دیتی رہی۔ غلاموں کی طرف سے اس وقت کی طاقتور ترین فوج کو پے در پے شکستیں تاریخ کے تابناک ابواب میں سے ایک ہے۔ اگر وہ رومن ریاست کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے تو تاریخ کا دھارا واضح طور پر تبدیل ہو جاتا۔ کامیابی کی صورت میں سماج کی کیا شکل برآمد ہوتی اس کا مِن و عَن نقشہ کھینچنا مشکل ہے مگر غلام بہرحال آزاد ہو جاتے اور عمومی دھارا جاگیرداری نظام سے ملتے جلتے کسی رجحان کی جانب ہی ہوتا۔
اس بغاوت کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ ان غلاموں کا شہروں کے محنت کشوں سے جڑت نہ بنا پانا تھا۔ اس وقت کے روم کے شہری محنت کش آج کے محنت کشوں کے برعکس ایک طفیلی طبقہ تھا جن کے مفادات اشرافیہ سے میل کھاتے تھے۔ بالآخر اس زبردست بغاوت کو کچلنے کے لیے پورے سلطنت روم کی فوج کو بلانا پڑا۔ سپارٹیکس کے کردار سے متاثر ہو کر ہی بیسویں صدی میں جرمنی کے کمیونسٹ انقلابیوں روزا لکسمبرگ اور کارل لبنیخت نے اپنی پارٹی کا نام سپارٹاکسٹ لیگ رکھا تھا۔
تاریخ کو ہمیشہ فاتحین نے لکھا ہے اور اس طرح روم کے تاریخ دانوں نے سپارٹیکس کے کردار کے ساتھ زیادہ انصاف نہیں کیا۔ مگر اس کے باوجود مارکسزم کا انقلابی نظریہ جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کی صورت میں ہمیں وہ سائنسی بصیرت عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ ہم سپارٹیکس پر سے تعصب کی دھول ہٹا کر غلاموں کے اس عظیم قائد کو کسی حد تک اس کا حقیقی مقام دلا سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش عالمی سطح پر شہرت یافتہ کمیونسٹ رہنما ایلن ووڈز نے کی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ”رومن ریپبلک میں طبقاتی جدوجہد (Class Struggle In The Roman Republic)“ نامی کتاب میں سلطنت روم میں ہونے والی جدوجہدوں اور بغاوتوں کو سائنسی انداز میں پیش کیا ہے، جو کہ بلاشبہ ظلم، جبر اور استحصال سے پاک سماج کی تشکیل کی جستجو رکھنے والے نوجوانوں کے لیے بہت اہم کتاب ہے۔
سپارٹیکس کے کردار پر لکھے ہاورڈ فاسٹ کے معروف ناول پر اسٹینلی کیوبرک نے 1960ء میں ایک شاندار فلم بنائی تھی جو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ ہم تمام نوجوانوں کو یہ فلم دیکھنے کا مشورہ دیں گے۔ ہاورڈ فاسٹ کا ناول کوئی تاریخ کی کتاب نہیں لیکن اس کے باوجود سپارٹیکس کے کردار کی روح کو اس نے پوری ایمانداری سے پیش کیا ہے۔ سپارٹیکس کا کردار تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جسے کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔
آج بھی انسانوں کی بھاری اکثریت کو اس سرمایہ دارانہ نظام نے جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ آج پوری دنیا کے محنت کشوں کے پاس بقول کارل مارکس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کے لیے پورا جہاں پڑا ہے۔