چے گویرا کون تھا؟

|تحریر: ثناء اللہ جلبانی|

8 اکتوبر 1967ء کو براعظم جنوبی امریکہ کے ایک ملک بولیویا کے جنگلوں میں چے گویرا ایک جھڑپ میں زخمی ہوا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے ہی دن اسے امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں نے گولی مار کے شہید کر دیا۔ بولیوین آرمی اور سی آئی اے نے اسے تمغہ سمجھ کر تصویریں بنائیں لیکن خوفزدہ قاتلوں نے اس کو ایک عوامی اجتماع کے سامنے دفنانے کی بجائے ارادہ کیا کہ چے کی لاش کو غائب کر دیا جائے لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔ کیونکہ چے پہلے ہی دنیا بھر کے کروڑوں مظلوموں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا تھا۔ وہ ایک بغاوت کا استعارہ اور عالمگیر انقلاب کی علامت بن چکا تھا۔ چے نے عملی انقلابی کے طور پر ہنگامہ خیز زندگی بسر کی۔ چے بلا شبہ ایک ان تھک، پُرعزم اور نڈرانقلابی تھا جس نے قربانی اور جانفشانی کے ایسے باب رقم کیے جن کی مثال نہیں ملتی۔

انسانی تاریخ کی تمام عظیم شخصیات کی طرح چے گویرا کو بھی حکمرانوں کی جانب سے متنازعہ بنا دیا گیا ہے اور اس کے افکار کو ممکنہ حد تک ممنوع قرار دینے یا پھر مسخ کر کے نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کا سلسلہ اس کے مرنے کے دہائیوں بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے دشمن جب تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود بھی تاریخ کی پیشانی سے اسکا نام کھرچ نہیں پائے تو پھر اسے ایک رومانوی کردار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آپ نے یقیناً چے گویرا کی تصویریں ٹی شرٹس، اسٹیکرز، پوسٹرز اور دیگر ملبوسات پرپر بنی ہوئی دیکھی ہوں گی۔

اس مضمون میں چے کے متعلق مغالطوں اور سازشوں کے جواب میں نوجوانوں کو چے کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے حوالے سے مختصر بحث کی گئی ہے تاکہ آج کے نوجوان اس عظیم انقلابی کی نظریاتی میراث سے درس حاصل کرتے ہوئے اس انسان دشمن اور متروک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو منظم کریں۔

”ارنستو گویرا ڈی لاسیرنا“ جسے آج دنیا ”چے گویرا“ کے نام سے جانتی ہے 14 جون 1928ء کو ارجنٹینا میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ انسان دوستی کی اس کی خصلت پہلے اسے میڈیکل کے شعبے کی طرف لے گئی اور وہ ڈاکٹر بن گیا۔ اس نے جلد کے شعبے (Dermatology) میں سپیشلائزیشن کی۔

بیشتر نوجوانوں کی طرح اسے بھی گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ اس کا راستہ کون سا تھا، اس کی سمت کون سی ہوگی اس کا ادراک اسے خود بھی نہیں تھا۔ بلاشبہ وہ ایک فرض شناس فزیشن بن سکتا تھا لیکن اس کی ”جہاں گردی“ اس پر حاوی ہو گئی اور اسے کھینچ کے کہیں اور ہی لے گئی، اسے کچھ اور ہی بنا گئی۔ اس نے سفر اختیار کیا تو پھر منزل مقصود کی جانب بڑھتا ہی گیا اور برسوں اپنے وطن ارجنٹینا واپس نہ آسکا۔ اس کی سرکش طبیعت اسے موٹرسائیکل پر اسے سارے جنوبی امریکہ کے سفر کی طرف لے گئی۔

اس سفر نے اس کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس سفر نے اس پر اس دنیا کی حالت و کیفیت عیاں کردی جس میں وہ جی رہا تھا۔ چے نے پہلی بار اپنے بر اعظم پر بسنے والی عوام کی حقیقی غربت زدہ حالت دیکھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بد ترین حالات میں بسنے والی زندہ لاشوں کو دیکھا۔ ذخائر سے مالامال خطے میں اتنا بھیانک پن، اتنی کراہت، اتنی محرومی، اتنی غربت۔

اس سوال نے چے کے شعور کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کی جذباتی اور حساس فطرت کو ہلا کے رکھ دیا اور اسے ان تضادات کی اصل وجوہات کو کھوج نکالنے کی طرف راغب کیا۔ اس نے اپنی زندگی کے لیے جو خواب اور آدرش سوچے تھے وہ اچانک کمتر اور غیر اہم ہوگئے۔ غربت، جہالت، بے گھری، بھوک اور محرومی جیسی بیماریوں کا علاج کون کرے گا اور کس طرح ممکن ہے؟

یوں دھیرے دھیرے اس نوجوان کے دل ودماغ میں انقلابی نظریات نے جنم لیا اور پھلنا پھولنا شروع کر دیا۔ وسیع مطالعہ اس کی ایسی عادت تھی جو مرتے دم تک قائم رہی۔ اس نے مارکسزم پڑھنا شروع کیا۔ وہ بتدریج، غیر محسوس طریقے سے اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام کو درپیش آلام و مصائب کا انقلاب کے سوا کوئی حل نہیں۔

اسی اثنا میں 1953ء میں چے نے گوئٹے مالا کی کمیونسٹ لیگ میں شمولیت اختیار کر لی جسے امریکی آشیرباد سے جبر کا سامنا کرنا پڑا اور گرفتاریاں شروع ہو گئیں اس وجہ سے چے کو میکسیکو ہجرت کرنا پڑ گئی۔ وہاں جون 1955ء میں وہ راؤل کاسترو سے ملا پھر اس کے بھائی فیڈل کاسترو سے ملاقات ہوئی جسے کیوبا میں قید سے رہائی مل چکی تھی۔

وہ پورے لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریک منظم کرنے کی شرط پہ فوری طور پر فیڈل کاسترو کی انقلابی ”26 جولائی تحریک“ کا حصہ بن گیا جوکیوبا کے صدر بتیستا کی آمریت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ پہلے پہل اسے طبی خدمات کے لیے منتخب کیا گیا کیونکہ وہ ساری عمر دمہ کے عارضے میں مبتلا رہا تھا، تاہم اس کے باوجود چے گویرا تحریک کے باقی ممبران کے ساتھ مسلح تربیت بھی حاصل کرتا رہا اور بطور جنگجو اپنا لوہا منوایا۔

کئی مشکلات اور ناکامیوں کے بعد یہ گروہ کیوبا کے سیرا مایسترا کے پہاڑوں تک پہنچا جہاں سے انہوں نے بتیستا حکومت کے خلاف گوریلا کاروائیاں شروع کر دیں۔ وہ بڑی جرات مندی سے کامیابیاں حاصل کرتے گئے۔ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں انہیں زبردست پذیرائی ملی۔ بڑی تعداد میں نئے لوگ ان کے ساتھ شامل ہوتے گئے۔ یہ گوریلا جنگ سارے مشرقی کیوبا میں پھیل گئی۔

ان باغیوں کی سب سے بڑی طاقت تو بربریت پر قائم سماج کو تبدیل کرنے کی جستجو ہی تھی مگر ساتھ ساتھ بدعنوانی اور زوال پذیری کی وجہ سے اندر سے کھوکھلی ہو چکی حکومت ِوقت بھی انہیں کافی مدد فراہم کر رہی تھی۔ امریکی سامراج کی طرف سے اسلحے اور سرمائے سمیت ہر قسم کی امداد کے باوجود بھی بتیستاآمریت انقلاب کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے میں ناکام تھی۔ اس ڈکٹیٹر کی فوج گلی سڑی حکومت کے تحفظ کے لیے اپنی جان گنوانے سے انکاری تھی۔ پے درپے شکستوں نے فوج کے حوصلے پست کر دیے اور بالآخر وہ شکست سے دوچار ہوئے۔ اس مہم کے دوران چے گویرا ایک کمانڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس کی دلیری، جرات اور عسکری صلاحیتوں نے اس کا تشخص بدل دیا۔ وہ فیڈل کاسترو کے بعد دوسرے نمبر پر آچکا تھا۔

دسمبر 1958ء میں جانبازوں نے مغرب کی سمت پیش قدمی کی اور دارالحکومت ہوانا پر فیصلہ کن حملہ کیا۔ سنتا کلارا میں بھی مشکل اہداف کو حاصل کر لیا گیا۔ یکم جنوری 1959ء کے دن پالما میں موجود باغی سپاہیوں کو حتمی لڑائی کا حکم دیا گیا۔ اس روزدارلحکومت ہوانا کے محنت کشوں نے عام ہڑتال کر دی۔ اس عام ہڑتال نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کی بدولت ریاست مفلوج ہو کر رہ گئی اور چے گویرا اور اسکے کامریڈز نے ہوانا شہر پر قبضہ کر لیا۔ آمریت کا رعب و دبدبہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔بتیستا ملک چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ریاست پر اب انقلابیوں کا کنٹرول تھا۔ دنیا بھر میں محنت کش طبقے اور انقلابیوں نے انقلاب کیوبا کا خیر مقدم کیا۔ یہ حکمران طبقے کیلئے حقیقتاً ایک بہت بڑا جھٹکا تھا اور سامراج کو یہ شکست انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی طاقت امریکہ کی دہلیز پر ہوئی تھی۔ اس انقلاب نے دنیا بھر میں ہر جگہ محروموں اور مظلوموں کی آنکھیں امید سے روشن کر دیں۔ انقلاب کے چند سالوں بعد کیوبا میں سوشلزم کی جانب سفر کا آغاز ہوا اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے ایک منصوبہ بند معیشت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ منصوبہ بند معیشت آج بھی تمام تر مشکلات اور اندرونی و بیرونی حملوں کے باوجود قائم ہے اور سرمایہ دارانہ یلغار کا ابھی تک مقابلہ کر رہی ہے۔

چے گویرا انقلابی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز ہوا۔ وزیر صنعت، زرعی اصلاحات کے نیشنل کمیشن اور کیوبا کے قومی بینک کا سربراہ بھی رہا۔ چے نے اس دوران جو بھی خدمات سرانجام دیں اس کا سرکاری طور پر معاوضہ لینے سے اس نے انکار کر دیا۔ اس نے صرف وہی معمولی اجرت لی جو وہ اس سے پہلے کمانڈر کے طور پر لیتا آرہا تھا۔ یہی مختصر سی تفصیل ہمیں اس انسان کے کردار کے بارے میں بتانے کے لیے کافی ہے۔ اس کا مؤقف تھا کہ وہ اس عمل سے انقلابی مثال قائم کرنا چاہتا تھا۔ چے گویرا نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ عملی طور پر بھی انقلابی اصولوں کا سچا پیروکار تھا۔ چے کو نہ تو بدعنوان کیا جا سکتا تھا نہ ہی اس میں افسرانہ نخوت و نخرہ تھا۔ اسے افسر شاہی، نوکر شاہی اور مراعتوں سے شدید نفرت تھی۔ وہ اپنی انقلابی اخلاقیات میں سخت جان تھا اس لیے وہ انقلاب کے بعد ابھرتی ہوئی افسرشاہی اور جی حضوری کے شدید خلاف تھا۔ وہ بلاشبہ ایک زرخیز اور متجسس ذہن کا مالک تھا۔

چے اپنی تحریروں میں ایسی نظریاتی و سیاسی تعلیم کے منصوبے کو عمل میں لانے کی تجویز دیتا ہے جس کے تحت مارکس، اینگلز، لینن اور دیگر انقلابیوں کی تحریروں کا منظم مطالعہ کیا جا سکے۔ چے گویرا مطالعے کا بہت رسیا تھا اور بولیویا میں گوریلا جنگ کیلئے (جو اسکی زندگی کی آخری جنگ ثابت ہوئی) وہ بہت ساری کتابیں ساتھ لے کر گیا۔ اپنے ساتھ لے کر جانے والی کتابوں میں خاص طور پر انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کی ”انقلاب مسلسل“ اور ”انقلاب روس کی تاریخ“ شامل تھیں۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں مشکل ترین حالات میں گوریلا جنگ میں جنگجو اپنے پاس صرف وہی سامان رکھتا ہے جسے وہ انتہائی لازمی اور اہم سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ چے گویرا اپنی جدوجہد سے اسباق حاصل کرتا ہوا ٹراٹسکی کے انقلابی نظریات کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ایک سچا انقلابی ہمیشہ خود تنقیدی کے عمل کو جاری رکھتا ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے درست نتائج اخذ کرنے کو جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت سمجھتا ہے۔ آخری وقت میں چے گویرا بھی اسی جانب بڑھ رہا تھا۔ وہ گوریلا جنگ کے طریقہ کار کی بجائے مزدور تحریک کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے عام ہڑتالوں اور سوویتوں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے انقلابی طریقہ کار سے اتفاق رائے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ خود کیوبا کے انقلاب کا سائنسی تجزیہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ مزدوروں کی عام ہڑتال نے ہی اس انقلاب کو حتمی طور پر کامیاب کیا تھا گو کہ کاسترو اور چے گویرا جیسے انقلابیوں کی جدوجہد نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

چے نہ تو قوم پرست تھا اور نہ ہی مہم جو بلکہ اس کے برعکس وہ ان دونوں رجحانات کے شدید مخالف تھا۔ وہ قومی اور نسلی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے لگائی گئی لکیروں کو مانتا ہی نہیں تھا۔ اس کی عملی زندگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ دنیا بھر کے مظلوم طبقات کی نجات کا علمبردار بن کے سامنے آیا تھا۔ چے گویرا ایک مستقل مزاج انقلابی اور کمیونسٹ تھا۔ انقلاب کے فوری بعد کاسترو کا تناظر سوشلسٹ نہیں تھا، یہ چے کا مسلسل اصرار تھا کہ کیوبا کے انقلاب کو ہر حال میں سوشلسٹ شکل دینی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ انقلابی بین الاقوامیت کا زبردست حامی تھا اور سمجھتا تھا کہ کیوبا کے انقلاب کا واحد دفاع اسی میں ہے کہ انقلاب کی روشنی کو دنیا کے باقی حصوں میں پھیلایا جائے اور انقلاب کیوبا کو عالمی انقلاب کی جانب لے کر بڑھا جائے۔ اسی دوران اس کے سوویت یونین کی مزدور ریاست پر براجمان بیوروکریسی سے بھی اختلافات ابھرے تھے۔

انقلاب کیوبا کی لاطینی امریکہ میں تنہائی اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھی اور پھر چے گویرا ایسا انسان بھی نہیں تھا جو نظریے کو صرف کاغذوں اور کتابوں تک ہی محدود رکھنے کا عادی ہو۔ اس نے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے 1965ء میں کیوبا کو خیرباد کہہ دیا اور انقلاب کے پھیلاؤ کے عظیم مقصد کے لیے بیرون ملک روانہ ہوگیا۔ اس نے افریقہ میں جاری انقلابی جدوجہد میں شامل ہونے کا ارادہ کرلیا۔ سب سے پہلے وہ کانگو کے دارالحکومت کنشاسا پہنچا لیکن تحریک وہاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی۔ اس کے بعد اس نے فوجی حکمت عملی کے پیش نظر بولیویا کا انتخاب کیا۔ وہاں سی آئی اے اور بولیوین اسپیشل فورسز کو چے کی موجودگی کی خبر ملی اور اس کا تعاقب شروع ہوگیا۔ 9 اکتوبر کو عالمی انقلاب کے جذبے سے سرشار چے گویرا کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ لیکن جس انسان کو اتنی سفاکی سے قتل کیا گیا وہ تاریخ میں امر ہو گیا جبکہ اس کے قاتل گمنامی کی موت مر گئے۔ وہ تاریخ میں ہمیشہ غریبوں اور مظلوموں کی آواز ایک بہادر جنگجو، ایک انقلابی ہیرو اور عالمی سوشلزم کی جدوجہد کے عظیم شہید کے نام سے یاد کیا جاتا رہے گا۔

چے گویرا کا سچا اور حقیقی پیغام یہ ہے کہ اپنے اردگرد ہونے والے ظلم و جبر کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے جائیں بلکہ اس کی وجوہات جان کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی خاطر عملی جدوجہد کی جائے۔ اور سب سے اہم سبق کہ سوشلسٹ انقلاب کسی ایک تنہا ملک کا عمل اور مقدر نہیں ہوسکتا بلکہ یہ عالمی انقلاب کا نقطہ آغاز ہوتاہے۔ صرف عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی انسانیت کی نجات کا ضامن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.