ڈاو میڈیکل کالج بوائز ہاسٹل بحالی تحریک، آگے کیسے لڑا جائے؟

|تحریر: عادل راو|

ڈاو میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل چھیننے کے بعد سے ہی یہ تحریک چل رہی ہے۔ انتظامیہ کے نام درخواستوں، قانونی کاروائی سے لے کر پہلے ٹوکن احتجاج اور پھر کیمپس اور پریس کلب پر احتجاجوں کے لمبے سلسلے کے بعد بلآخر تحریک تین روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ پر ہونے والے مزاکرات اور پھر ان مزاکرات میں کیے گئے حکومتی وعدے پورے نہ ہونے کے بعد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس مرحلے پر تحریک کا ایک تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک کی خوبیوں کو مزید بہتر کیا جا سکے اور خامیوں کو ختم کر کے جدو جہد کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔

ہم سمجھتے ہیں ڈاو میڈیکل کالج کے طلبہ کی تحریک کے نعروں کا مواد، انکا منظم ہونا، انکی ثابت قدمی، جدو جہد پر یقین اور طبقاتی شعور کو دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ پچھلے چند سالوں میں ہونے والی طلبہ کی سب سے ریڈیکل تحریک ہے۔ جس نے نہ صرف ڈاو کے طلبہ بلکہ دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کی لڑائی کو بھی ایک قوت بخشی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی کمپئین میں جس طرح ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے اس تحریک میں حصہ لیا وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

طلبہ کی اسی طاقت کو دیکھتے ہوئے ریاستی ایوانوں میں کھلبلی دیکھنے کو ملی، سندھ حکومت کومجبوراً اپنے وزیر کو طلبہ کے پاس ”مزاکرات“ کے لیے بھیجنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ مذاکرات کے دوران بیلنس آف فورسز واضح طور پر طلبہ کے حق میں تھا، طاقت و اختیار ڈاو کے طلبہ کے پاس تھا اور یہ وہ موقع تھا جب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر کے ہاسٹل کی بحالی کا تحریری نوٹی فیکیشن حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت قیادت کا محض حکومتی ”یقین دہانیوں“ پر اکتفا کر کے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تین روزہ بھوک ہڑتال کے باعث طلبہ کی حالت بگڑ رہی تھی اسی لیے پروگریسو یوتھ الائنس نے مذاکرات سے پہلے بھی اور مذاکرات کے دوران بھی یہ اصولی موقف رکھا تھا کہ جب تک حکومت تحریری نوٹفیکشن جاری کر کے ہاسٹل بحال نہیں کر دیتی فی الوقت بھوک ہڑتال ختم کر دی جائے اور احتجاجی دھرنا جاری رکھا جائے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں حکومت طلبہ کی محبت میں نہیں بلکہ انکی جدو جہد کے خوف کی وجہ سے آئی تھی اور اس وقت اپنے مطالبات کو منوانا ایک درست عمل تھا۔

دھرنا ختم کر دینے سے نہ صرف حکومت پر بننے والا خوف اور پریشر ختم ہوا ہے بلکہ خود تحریک کی شدت اور تحریک کا مومینٹم بھی ٹوٹا ہے۔

دوسرا پہلو ڈاو میڈکل کالج کے ڈے سکالرز کا تحریک میں شامل نہ ہونا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاو میڈیکل کالج کے ڈے سکالرز بھی کیمپس میں مختلف مسائل کا شکار ہیں، اور ہاسٹل کے مسئلے کو ان مسائل سے جوڑ کر اس تحریک کو صرف ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کی تحریک سے پورے ڈاو میڈیکل کالج کی تحریک بنایا جا سکتا ہے۔ اسکا واحد طریقہ ڈے سکالرز میں بھرپور کمپئین اور چارٹر آف ڈیمانڈز میں ڈے سکالرز کے سلگتے مسائل کو شامل کرنا ہے۔ جتنے زیادہ طلبہ ہاسٹل کی تحریک میں شامل ہوں گے یہ تحریک اتنی ہی طاقتور ہوگی۔ طلبہ کی کم تعداد کو لے کر حکومت اور کالج انتظامیہ کے لیے انکے خلاف ایکشن لینا اور انکے خلاف پروپیگینڈہ کرنا آسان ہو جاتا ہے، اسکے برخلاف جب ہاسٹل کی تحریک کالج کے دیگر مسائل کے رستے ڈے سکالز سے جڑے گی تو حکومت و انتظامیہ کے لیے کوئی بھی ایکشن لینا انتہائی مشکل ہوگا اور ساتھ ہی ہاسٹل کا مسئلہ حل کرنے کا پریشر بھی بڑھتا جائے گا۔

ہم مزید سمجھتے ہیں کہ اس وقت پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہاسٹل سمیت مختلف مسائل پر طالب علموں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کراچی یونیورسٹی سے لے کر پنجاب یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج سے لے کر پونچھ ڈگری کالج کشمیر تک طلبہ سراپا احتجاج ہیں اور احتجاجوں کی اس کیفیت میں ریاست پر طلبہ تحریک کا ایک خوف طاری ہے جسکا واضح ثبوت لاک ڈاون کے بعد کھلنے والے اداروں کی کورونا کے نام پر دوبارہ بندش ہے۔ ایسے حالات میں جب مارکیٹیں، ٹرانسپورٹ، دفاتر، فیکٹریوں سے لے کر تمام شعبہ ہائے زندگی کھلے ہیں، تو صرف تعلیمی اداروں کو کورونا کے نام پر بند کرنے کا مقصد طلبہ کی زندگیوں کی فکر تو قطعی نہیں ہے، جیسے کورونا صرف کیمپس میں چھپ کر بیٹھا ہے، بلکہ اس کا واضح مطلب ریاست کو طلبہ تحریک کا خوف ہے۔

ڈاو میڈیکل کالج کی تحریک کو جب اس سارے تناظر سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ڈاو کے طلبہ کی پورے پاکستان کے طلبہ سے یکجہتی کی اپیل اور ہاسٹل کے مسئلے کو طلبہ کے عمومی مسائل سے جوڑنا حکومت کے لیے ایک الٹی میٹم ثابت ہوگا۔ ریاست صرف اس خوف سے کہ بات کہیں ایک ہاسٹل سے آگے نہ نکل جائے، ہاسٹل کا مسئلہ حل کرنے کی طرف بڑھے گی۔

ڈاو میڈیکل کالج کے طلبہ نے اب تک اپنے خلوص، بہادری اور ثابت قدمی سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لڑ کر اپنا حق لینا جانتے ہیں اور مایوسی کی کوئی رمق بھی ان کو چھو کر نہیں گزری، لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا مایوسی اور تھکاوٹ میں فرق ہے۔ جیسے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ درست فیصلہ تھا، طلبہ کو جلد بازی نہیں کرنی چاہیے، جدو جہد طویل ہوتی ہے اور اس جدو جہد کو سالوں بھی لگ سکتے ہیں۔ پی وائی اے سمجھتا ہے کہ محنت کش ہوں یا طلبہ، وہ زیادہ عرصہ لڑائی میں نہیں رہ سکتے، روز مرہ کے معمول، والدین کا پریشر، تعلیم اور امتحانات کا دباو، کوئی سائنسی پروگرام اور وضاحت نہ ہونے کے باعث آگے کا واضح لائحہ عمل نہ ہونا، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن سے تحریک تھکاوٹ کا شکار ہو سکتی ہے، اس لیے اس مخصوص وقت میں جب طاقت آپ کے پاس ہو، ہار اور جیت کا نتیجہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس میں دیر کرنا شکست ہوتی ہے۔ چونکہ عمومی سیاسی جدو جہدیں طویل ہوتی ہیں اس بنا پر سمجھنا کہ اس تحریک کو طویل ہی ہونا چاہیے، اس تحریک کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پہلے بھی صرف اور صرف طلبہ کی جدو جہد سے ہی حکومت پریشر میں آئی تھی اور آئندہ بھی صرف جدو جہد ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اپنے ہاسٹل کا حق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان اسمبلیوں، عدالتوں، میڈیا یا ریاست کے دیگر اداروں کا کردار ہمارے سامنے ہے، آج تک نہ کبھی انہوں نے طلبہ کے حق میں کوئی اقدام نہ کیا ہے نہ ان سے امید رکھی جا سکتی ہے۔ یہ ہمارے نہیں حکمرانوں کے ادارے ہیں، یہ سیاسی پارٹیاں حکمرانوں کی پارٹیاں ہیں، انکے بچے محلوں میں رہتے ہیں یہ ہاسٹل نہ ہونے کا درد سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اگر ہمارا کوئی اتحادی اور ہمدرد ہو سکتا ہے تو وہ وہی طلبہ ہو سکتے ہیں جو خود ہاسٹل، فیسوں اور دیگر مسائل سے دوچار ہیں اور سراپا احتجاج ہیں۔ ہماری امید کا مرکز ہماری طاقت ڈاو میڈیکل کالج کے ڈے سکالرز اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ ہونے چاہئیں نہ کہ یہ حکمران۔ البتہ پروپیگینڈے اور پریشر کے طور پر منتخب نمائندوں سے سوال کرنا، عدالتوں میں کیس وغیرہ کرنا تو ٹھیک ہے لیکن امید اور انحصار صرف اور صرف ہماری جدو جہد اور ہمارے طلبہ ساتھیوں پر ہی ہونی چاہئیے۔

آخر میں ہم پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے تحریک کے لیے چند عملی سفارشات رکھنا چاہتے ہیں۔

1۔ ڈاو میڈیکل کالج کے ڈے سکالر طلبہ میں بھرپور کمپئین کا آغاز کیا جائے۔
2۔ طلبہ کی تعداد کے مطابق پمفلٹ چھپوا کر کالج کے ہر طالب علم میں تقسیم کیے جائیں، اور گروپس کی شکل میں کلاس ٹو کلاس جا کر کالج کے طالب علموں سے ہاسٹل اور ڈے سکالرز کی مسائل پر بحث کی جائے۔
3۔ ڈے سکالرز اور ہاسٹل کے طلبہ کی رابطہ کاری کے لیے فوری طور پر واٹس ایپ گروپ بنایا جانا چائیے۔
4۔ ڈے سکالرز اور ہاسٹل کے طلبہ کی ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور اس کمپئین اور رابطہ کاری کی ذمہ داری ان کمیٹیوں کو سونپی جائے۔
5۔ ڈاو میڈیکل ہاسٹل کے طلبہ وفد کی شکل میں کراچی کے دیگر تعلیمی اداروں میں دورے کریں اور اس تحریک کے لیے اظہار یکجہتی کی اپیل کریں۔
6۔ کراچی سے باہر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے اس تحریک میں شامل کیا جائے۔
7۔ ایک پھرپور کمپئین کے بعد جب زیادہ سے زیادہ طلبہ میں موبلائزیشن ہو چکی ہو، کیمپس کے اندر ہی احتجاج کی کال دی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.