|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور کی جانب سے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ اس کے خلاف طلبہ نے منگل کے روز یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے احتجاج کیا تو انتظامیہ نے طلبہ کو ہراساں کرنا شروع کیا اور 14 طلبہ کے پورٹل بلاک کر دیے اور ان کا یونیورسٹی میں داخلہ ممنوع کر دیا۔ طلبہ نے ڈرنے کی بجائے جرات کا مطاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف جمعرات کی صبح کو احتجاج کرنے کی کال دی اور سوشل میڈیا پر بھرپور کمپئین کی۔ انتظامیہ پھر حرکت میں آئی اور ٹرینڈ چلانے والے سٹوڈنٹس کو ای میل کیے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ مگر اس سب کے باوجود احتجاج کی کمپئین جاری رکھی گئی۔
اس شدید مہنگائی اور حقیقی اجرتوں میں کمی کے وقت اتنی زیادہ فیس ادا کر پانا محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے تو ناممکن بن چکا ہے لیکن اب درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے باعث کئی طلبہ پارٹ ٹائم نوکریاں یا پھر فری لانسنگ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں یونیورسٹی کی جانب ہر سہہ ماہی فیس کی انسٹالمنٹ میں 30-40 ہزار روپے یعنی سالانہ تقریباً ڈیڈھ لاکھ روپے کا اضافہ کرنا سراسر زیادتی ہے۔
کل جمعرات کے روز احتجاج کے لیے طلبہ اکٹھے ہی ہوئے تھے کہ مقامی پولیس سٹیشن کے SHO نے طلبہ کو مذاکرات کیلئے ٹاؤنشپ پولیس تھانے بلایا۔ احتجاج میں یکجہتی کے طور پر شامل ہونے والے پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور ایجوکیشن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پی وائی اے کے کارکنان نے طلبہ سے پولیس کے کردار پر تفصیلی بحث کی۔ پولیس کے ادارے کا کردار طلبہ دوست ہو ہی نہیں سکتا، پولیس نے ہمیشہ ہی اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا اور حقوق چھیننے والوں کی دلالی کی ہے، روٹی جیسے بنیادی حق مانگنے کی پاداش میں جیلوں میں پابند سلاسل کرنے والی پولیس کس طرح سے طلبہ کی فیسوں کے خاتمے کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہو گی؟ فیسوں کے مسئلے پر مذاکرات میں پولیس کا کیا کام ہے؟ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو HEC کرے یا پھر پنجاب کا گورنر۔
پولیس تھانے میں مذاکرات کے سلسلے انتظامیہ کے بندے بھی بلائے گئے۔ جہاں مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان طلبہ کو یونیورسٹی بلایا جہاں انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور فیسوں میں اضافے کے فیصلے کو واپس لینے سے مکمل انکار کر دیا۔ انتظامیہ نے مسائل حل کرنے کی بجائے فیسوں میں اضافے کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہوئے انہیں کہا کہ 25 طلبہ یو ایم ٹی کے 25 ہزار طلبہ کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ یاد رہے اس وقت یونیورسٹی میں سمر کیمپ چل رہا ہے اور فیسیں بڑھاتے ہی کلاسز آن لائن کر دی گئیں۔ جس وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد شرکت نہیں کر سکی۔ لیکن اگر احتجاج کرنے والے پچیس طلبہ پچیس ہزار طلبہ کی نمائندگی نہیں کر رہے، تو کیا انتظامیہ کے چند بندوں نے فیسیں بڑھاتے ہوئے پچیس ہزار طلبہ کی رائے لی تھی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت اگر انتظامیہ یونیورسٹی میں اوپن ریفرنڈم کرائے کہ سٹوڈنٹس فیسوں کے بڑھنے کے حق میں ہیں یا نہیں تو سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ کیونکہ یونیورسٹی میں مطالبات منوانے والوں کو جبر کا نشانہ بنا کر ہمیشہ نشانہ عبرت بنایا جاتا ہے۔ اور طلبہ کے جمہوری حق طلبہ یونین پر بھی ظالمانہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ اپنے بنیادی حق کے لیے احتجاج کرنے کی پاداش میں پورٹل بلاک کرنے سے لے کر طلبہ کی ڈگریاں چھیننے سے لے کر زد و کوبی اور ہراسمنٹ سمیت ایسا کون سا حربہ ہے جو انتظامیہ اختیار نہیں کرتی؟ طلبہ ان کی انتقامی کاروائیوں سے ڈر کر سامنے نہیں آتے لیکن فیسوں میں اضافے کے خلاف ان میں شدید غم وغصہ موجود ہے۔ لہٰذا ایسی خوفناک صورتحال میں بہادری سے اپنے حق کی جدوجہد کرنے والے طلبہ حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔
اس احتجاج میں یکجہتی کے طور پر یو ایم ٹی سے ہٹ کر دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی موجود تھے جوکہ خوش آہند بات ہے۔ اس پر بھی انتظامیہ نے شدید اعتراض کیا اور طلبہ کو ڈرانے کی کوشش کی کہ دوسری یونیورسٹیوں کے طلبہ انتشار پھیلاتے ہیں۔ وہ آپ کو یونیورسٹی سے رسٹیگیٹ کروا دیں گے، وہ اپنی سیاست چمکانے آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کی طاقت اتحاد ہے اور اس اتحاد کو مزید مظبوط کرنے ضرورت ہے۔
اس دوران بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جس میں طلبہ کے لیے اہم اسباق ہیں، اول تو ان حملوں کا جواب دینے کے لیے منظم ہوکر مزاحمت کرنا انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے۔ دوم انتظامیہ خصوصاً پرائیویٹ مافیا کا غلیظ اور طلبہ دشمن کردار کھل کر سامنے آیا، سوئم پولیس اور سیکیورٹی فورسز کا کردار جو کہ کبھی نام نہاد طلبہ دوستی اور کبھی لاٹھی چارج کا سہارا لے کر ہمیشہ یونیورسٹی مالکان کے مفادات کا ہی تحفظ کرتے ہیں۔
فیسوں میں اضافے کو کیسے روکا جاسکتاہے؟
دوستو! ہماری سب سے بڑی طاقت اتحاد ہے۔ اکٹھا اور منظم ہوئے بغیر ہم فیسوں میں اضافے کے فیصلے کو واپس نہیں کروا سکتے۔ کیونکہ اس وقت ہمارا جمہوری حق طلبہ یونین ہم سے چھینا گیا ہے، اس لیے کیمپس میں طلبہ کا کوئی نمائندہ پلیٹ فارم موجود نہیں ہے، لہٰذا جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہو جاتی تب تک طلبہ کو خود پورے کیمپس میں منظم ہونے کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس کے لیے طلبہ کو فوری طور پہ ہر کلاس اور ڈیپارٹمنٹ سے نمائندے منتخب کر کے یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ کی منتخب شدہ ایکشن کمیٹی بنانی ہوگی۔ اس ایکشن کمیٹی کے گرد تمام طلبہ کو منظم کر کے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی تحریک چلانی ہوگی۔ احتجاج اور اتحاد کے ذریعے ہی یہ لڑائی جیتی جا سکتی ہے۔ ہاں یاد رہے! کہ اس وقت یونیورسٹی میں سمر ویکیشنز ہیں اور کافی طلبہ شہر سے باہر اپنے علاقوں میں ہیں، ایسے میں لاہور کے مقامی طلبہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یہاں موجود تمام طلبہ سے رابطے بحال کر کے فوری طور پہ احتجاجی کمیٹی بنائیں اور اس تحریک کی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے علاوہ شہر سے باہر گئے ہوئے طلبہ جلداز جلد لاہور واپس آنے کی کوشش کریں، اگر کسی مجبوری کے باعث نہیں آسکتے تو فی الوقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھرپور کردار ادا کریں اور اپنے علاقے میں موجود تعلیمی اداروں کے طلبہ سے کیمپس میں جاری اس جدوجہد کو مظبوط کرنے کے لیے یکجہتی کیمپئین کا آغاز کریں۔
احتجاج کو منظم کرنے میں پی وائی اے کے کارکنان نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ بدھ کی روز ہی طلبہ سے ملاقات کی گئی تھی اور پرائیویٹ مافیا کی لوٹ مار کے خلاف شاندار لڑائی پر طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ احتجاج کے روز بھی طلبہ کے شانہ بشانہ رہے اور پولیس کے کردار سے لے کر انتظامیہ کے کردار پر طلبہ سے تفصیلی بحث کی جو سچ ثابت ہوئی۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے، انتظامیہ و پولیس کے طلبہ دشمن رویے کی مذمت کرتا ہے اور اس جدوجہد میں طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہنے کا عزم کرتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور فیسوں میں اضافے کو واپس لیا جائے، اگر واقعی فنڈز کی کمی ہے تو تمام کھاتے طلبہ کے سامنے اوپن کیے جائیں، طلبہ کو ہراساں کرنے والے انتظامیہ کے افسران کے خلاف کاروائی کے جائے اور طلبہ یونین بحال کرتے ہوئے یونیورسٹی میں فوری طور پرطلبہ یونین کے الیکشن کرائے جائیں۔
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!
چھین لو اپنا حق لٹیروں سے!