ترکی: سماجی بحران میں طلبہ کے احتجاج

|تحریر: فلورین کیلر، ترجمہ: یار یوسفزئی|

5جنوری، بروز منگل کو ترکی کے سب بڑے شہر استنبول میں اچانک طلبہ احتجاجوں کی ایک لہر پھوٹ پڑی۔ بوغازچی یونیورسٹی کے طلبہ نے جامعہ کے نئے ریکٹر ”میلیہ بولو“ جو ماضی میں رجب طیب اردگان کی پارٹی AKP کا نقال سابقہ امیدوار برائے پارلیمنٹ بھی رہا اور جسے 2 جنوری کو طیب اردگان کے حکم پر جامعہ کی صدارت کا عہدہ دیا گیا تھا، کے خلاف احتجاج کیا۔

پہلے ہی سوموار کو تیس سے چالیس طلبہ اس حوالے سے احتجاج کر چکے تھے۔ مگر منگل کے دن دیگر اداروں کے طلبہ سمیت بوغازچی یونیورسٹی کے سینکڑوں طلبہ ”میلیہ بولو ہمارا ریکٹر نہیں ہے!“ اور ”ریاست کا تقرر کردہ ریکٹر نامنظور!“ کے نعرے لگاتے ہوئے یونیورسٹی کے کیمپس میں اکٹھے ہوئے جہاں ان کا سامنا پولیس سے ہوا۔ پولیس کی جانب سے مرچوں کے سپرے، واٹر کینن اور ”غیر مہلک“ ہتھیاروں کے استعمال کے باعث بھگدر مچ گئی۔ پولیس نے یونیورسٹی کے احاطے میں طلبہ کو داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور جو پہلے وہاں موجود تھے ان کو بھی گرفتار کر کے احاطے کو خالی کرایا گیا۔ جیسے ہی پولیس یونیورسٹی کو خالی کرانے میں کامیاب ہوئی تو دروازوں کو ہتھکڑیاں لگا کر بند کر دیا گیا، جس کی تصویر فوراً سوشل میڈیا پر ترکی میں آزادیِ ظہارِ رائے پر پابندی کی علامت کے طور پر گردش کرنے لگی۔ اسی دن ہی یونیورسٹی کے لیکچرارز نے جامعہ کے ریکٹر کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے احتجاجی طلبہ کی حمایت میں ایک احتجاج منظم کیا، جس میں انہوں نے ”ہمارے طلبہ کو فوری رہا کیا جائے“ کے نعرے لگائے۔

ان حتجاجوں کو فوری طور پر ترکی ریاست کے روایتی جبر کا سامنا کرنا پڑا جو دراصل مظاہرین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش تھی تاکہ احتجاجوں کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اسی رات پولیس نے (خصوصی دستوں سمیت) مبینہ احتجاجیوں کے گھروں پر چھاپے مارے (ایک جگہ پر گھر میں داخل ہونے کے لیے عمارت کی دیواریں توڑ دیں) اور صرف منگل کی رات اور بدھ کی صبح ہی میں 36 افراد گرفتار کیے۔

استنبول کے گورنر نے بے شرمی سے وباء کا بہانہ بنا کر بیسکتاس اور ساریئر کے علاقوں میں بھی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی۔ بدھ کے دن کسی بھی منظم احتجاج کو مزید مداخلت سے روکنے کے لیے یونیورسٹی کے گرد ایک بڑے رقبے پر باڑ لگا کر اسے پوری طرح بند کر دیا گیا۔ چونکہ بوغازچی یونیورسٹی نہایت قابلِ تکریم ہے اس لیے میڈیا میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو یا تو ”دہشتگرد“ یا پھر ”بگڑے رئیس زادے“ قرار دیا گیا۔ اس کے ردِعمل میں طلبہ نے دو گھنٹوں کے مختصر وقت میں احتجاج کی جگہ تبدیل کرتے ہوئے تقریباً ایک ہزار کا مجمع اکٹھا کیا، جس نے ملک کے ایشیائی حصے پر موجود بوسپورس میں جلوس میں شامل ہونے سے قبل ملک کے یورپی حصے بیسکتاس کے گردونواح کا مارچ کیا۔ جبکہ اسی دوران سینکڑوں طلبہ یونیورسٹی کیمپس پر بھی اکٹھے ہوئے۔ تب ہی سے چھوٹے موٹے احتجاج شروع ہوئے اور دارالخلافہ انقرہ سمیت کئی شہروں میں یکجہتی کے لیے جلوس نکالے گئے۔ تادمِ تحریر یعنی بروز جمعہ، بھی یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ نے سینکڑوں کی تعداد میں احتجاج ریکارڈ کرایا۔

یہ مظاہرے بذاتِ خود جامعہ کے ریکٹر ”بولو“ کے خلاف نہیں ہو رہے بلکہ اس کے خلاف ہیں جس کی وہ نمائندگی کر رہا ہے۔ طلبہ نے احتجاجوں میں صرف عزم و ہمت کا مظاہرہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے طنز و مزاح کا استعمال بھی کیا اور یونیورسٹی بند کرتے ہوئے امریکی میٹل بینڈ میٹالیکا کا گانا ”کٹھ پتلیوں کا آقا“ (Master of Puppets) بُلند آواز میں چلا کر ساتھ خود بھی ”اطاعت کرو اپنے آقا کی“ کے الفاظ گنگناتے رہے۔ اس طریقے سے نئے ریکٹر کو طنز کا نشانہ بنایا گیا، جس نے اس سے قبل مقبول ہونے کے لیے عوامی اجتماع میں کہا تھا کہ وہ (Metal Music) میٹل موسیقی سننا پسند کرتا ہے۔

اردگان کا جبر اور ترک سرمایہ داری کا بحران

یہ بات بہت واضح ہے کہ آقا کون ہے۔ سال ہا سال سے ”قابلِ قبول“ کاموں کی حدود کو رفتہ رفتہ اپنی ذات اور اپنی سرکار کی وفاداری کی سمت میں موڑ کر ریاست کے صدر طیب اردگان نے یونیورسٹیوں، سکولوں، سیکیورٹی اداروں، میڈیا اور حتیٰ کہ اپنی پارٹی کی دانستہ انداز میں تطہیر کی اور خطرناک سمجھے جانے والے افراد کی جگہ اپنے وفادار کتوں کو دی۔

حالیہ احتجاجوں سے مذکورہ عمل کی ہی ایک اور کڑی کا اظہار ہوتا ہے۔ بوغازچی یونیورسٹی کے لیکچرارز کے مطابق 1980ء کے فوجی ’کو‘ کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ خود یونیورسٹی سے منتخب ہونے کی بجائے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کی تقرری ریاست کے صدر نے کی۔ ایسا کرنے کا اختیار اردگان کو پہلی دفعہ 2016ء کے ناکام ’کو‘ کے بعد ملا تھا جس کے بعد ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2018ء میں اس اختیار کی توثیق کی گئی، جب اردگان کی حکومت بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ اس کا یہ حالیہ اقدام سارے اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کے عمل میں بس ایک قدم ہے۔

مگر عمومی خیال کے برعکس اردگان کی ذاتی خواہشات کو اس سارے عمل میں مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ بلاشبہ اردگان، جو واقعات پر بے قاعدہ ردِعمل دیکھاتا ہے لیکن عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کو حالات و واقعات اور فیصلہ جات میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ مگر حتمی تجزیے میں وہ مکمل طور پر خود مختار نہیں اور اس کے سارے اقدامات سے ترکی کے سرمایہ دارانہ نظام کی عکاسی ہوتی ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں طویل معاشی بحالی کے بعد، ترکی پچھلے کچھ سالوں سے یکے بعد دیگرے بحرانات کا شکار رہا ہے۔ عوام کا معیارِ زندگی دن بدِن گرتا جا رہا ہے، خاص کر کرونا وباء کے نتیجے میں آنے والی عالمی معاشی گراوٹ کے بعد۔ بے روزگاری خاص کر نوجوانوں میں بڑھتی جا رہی ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے جلد ہی 15 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراطِ زر کی شرح بہت کم کر کے دکھائی جاتی ہے۔ 2020ء کے آغاز میں کم از کم اجرت سے تقریباً 2,324 روٹیاں خریدنا ممکن تھا۔ اس سال کے آخر میں یہ تعداد 1,550 تک گر گئی۔ پچھلے چند سالوں کے اندر تنخواہوں میں تیزی سے کٹوتیاں کی گئی ہیں اور لاکھوں لوگوں کے خطِ غربت سے نیچے گرنے کا خطرہ لاحق ہے۔ نومبر 2019ء کے بعد بارہ مہینوں کے اندر سرخ گوشت کی خریداری میں 30 فیصد کمی آئی ہے جبکہ پاستا، جو کہ ایک سستی پیداوار ہے، کی خریداری میں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 38 فیصد گھرانے اپنی غذائی ضروریات پوری نہیں کر پاتے اور 70 فیصد کا بمشکل گزارہ ہو پاتا ہے۔

اگرچہ معیشت سال کے آغاز میں تھوڑی سی بہتری کی جانب جا سکتی ہے، مگر پچھلے سال شرح سود انتہائی زیادہ رہی ہے اور کارپوریٹ اور نجی قرضوں میں بھی 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے قرضوں کا ایک بھیانک بحران اُفق پر منڈلا رہا ہے۔

یہ سب کچھ ایک ایسی صورتِ حال کی جانب لے کر جا رہا ہے جہاں اردگان کی پارٹی AKP کی روایتی بنیاد مٹتی جا رہی ہے، جس کا اظہار پچھلے متعدد انتخابات میں ہوا ہے، خاص کر ڈیڑھ سال قبل ہونے والے مقامی انتخابات میں۔ ترکی کا پورا سماج اس وقت کسی آتش فشاں کا روپ دھارے ہوئے ہے جو طبقاتی جدوجہد کا لاوا اگلنے کے لیے تیار ہے۔ اس صورتِ حال میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اردگان کا سفارتی اور فوجی مہم جوئی کے اوپر انحصار بڑھتا جا رہا ہے (جس کا اظہار یورپی یونین اور امریکی ریاست کے ساتھ سفارتی تصادم، یونان کو دھمکیاں دینے، شام اور لیبیا کی جنگوں، آرمینیا اور آذربائجان کے تصادم میں مداخلت کرنے سے ہوتا ہے)۔ وہ ترک قوم پرستی، مذہبی قدامت پرستی اور براہ راست ریاستی جبر کے ذریعے ترکی میں مذہبی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ مگر یہ سارے اقدامات سماج میں موجود تضادات کو بالآخر مزید شدید کرنے کا باعث بنیں گے۔

ماضی سے سبق سیکھو: مستقبل میں فتح یاب ہو!

بولو کی تقرری پر شدید رد عمل آنا کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں۔ ترکی کا سماج انقلابی عوامی تحریک کے لیے پک چکا ہے۔ نوجوانوں کی حالیہ تحرک سے عمومی طور پر پائی جانے والی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے، جو ترکی کے سماج میں بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ اردگان کا پریشان ہونا جائز ہے کیونکہ یہ واقعات آنے والے عرصے کے بڑے سماجی دھماکوں کا پیش خیمہ ہیں۔

اس کی سند ماضی میں بھی موجود ہے۔ 1960ء کی دہائی میں طلبہ میں عزیم الشان انقلابی تحریک طبقاتی جدوجہد کے شدید ہونے کی پہلی نشانی ہی تھی، جس نے ملک کو انقلاب کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اور جس کو 1980ء میں فوجی ’کو‘ کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اگر اس وقت مزدور قیادت اور طلبہ تنظیمیں غلط سیاسی طریقہ کار نہ اپناتیں تو ترکی میں سرمایہ داری کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔

حالیہ جدوجہد کوئی الگ تھلگ چیز نہیں ہے بلکہ یہ 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں چلنے والی تحریکوں کی طرح آج بھی ایک انقلابی تحریک کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ ترک سرمایہ داری کی موت کا اظہار ہے۔ ایک مخصوص مرحلے پر محنت کش طبقہ میدان میں اترے گا اور سماج کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔ آج انقلابی طلبہ کے اوپر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس سب کے لیے نظریاتی اور عملی دونوں طور پر بھرپور تیاری کریں۔ انہیں ماضی کی جدوجہدوں سے ہمت اور حوصلے کے ساتھ ساتھ ضروری نتائج حاصل کرتے ہوئے سیاسی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کامیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔ جب مزدور اور نوجوان متحدہ جدوجہد کریں گے تو اردگان کی حکومت اور ترکی کی سرمایہ داری نیست و نابود ہو جائے گی۔

60ء اور 70ء کی دہائی کی طرح آج بھی جس چیز کی کمی ہے، وہ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے سائنسی انقلابی نظریات کی مضبوط بنیادوں پر قائم ایک انقلابی قیادت کی کمی ہے؛ ایک ایسی قیادت جو یونیورسٹیوں میں پائے جانے والے وضع دار پیٹی بورژوا اور بورژوا خیالات کے دباؤ میں آ کر ان کے لیے کوئی رعایت نہ برتے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ موقع پرستی اور الٹرا لیفٹ ازم جیسے رجحانات، جنہوں نے ماضی کی تحریکوں کو بند گلی میں پہنچایا، کے خلاف لڑا جائے۔ ایک دفعہ جب محنت کش طبقہ جاگ اٹھا تو ان کو دوبارہ مُسلح کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔ جب ایک بار مارکسزم کا ہتھیار ترکی کے عظیم پرولتاریہ کے ہاتھ آ گیا تو پھر انہیں آگے سرمایہ دارانہ نظام کو نیست و نابود کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.