|تحریر:ایما سٹین ہوپ، ترجمہ: ثنا ء ا للہ جلبانی|
1848 ء میں، مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا اختتام ”دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!“ کے عظیم نعرے سے کیا۔ مارکس وادی 1864ء میں پہلی انٹرنیشنل کے قیام سے پہلے سے اسی مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ 150 سال سے زائد عرصے بعد بھی دنیا بھر کے انقلابیوں کے سامنے پھر یہی فریضہ ہے۔
بطور مارکس وادی ہم سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے، اس لیے اسے ختم کرنے کے لیے ایک منظم عالمی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
قومی ریاست کا کردار
سرمایہ داری کے ساتھ ہی قومی ریاست کی ضرورت پیش آئی۔ ایک وقت تک یہ ایک ترقی پسنداقدام تھا۔
چھوٹی جاگیردارانہ سلطنتوں اور شہری ریاستوں کے ملغوبے کی بجائے قومی ریاست ایک سیاسی نظام کے تحت ایک متحد ملک تھا، اور اسی لیے معاشی سرگرمیوں کے لیے ایک علیحدہ منڈی کی حیثیت رکھتا تھا۔ پرانی جاگیردارانہ سلطنتیں اتنی مظبوط اور وسیع نہیں تھیں کہ وہ مکمل طور پر ترقی یافتہ سرمایہ داری کے لیے ضروری حالات فراہم کرسکتیں۔
پس سرمایہ داری کی ابتدائی ترقی کے دور میں، ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے قوموں کو ایک ریاست میں متحد کرنا ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کی مجبوری تھی۔ شہروں، ضلعوں اور سلطنتوں کی بڑی قومی ریاستوں میں شمولیت کے ساتھ ان کی منڈیوں کے پھیلاؤ نے بڑے پیمانے پر صنعت کی مزید ترقی کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔
نئی منڈیوں کی کھوج اور پھیلاؤ سرمایہ داری کی مستقل ضرورت ہے۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ ممالک میں پیداواری قوتیں ترقی کرتی چلی گئیں، قومی ریاستوں کی منڈیاں مسلسل بڑھتی ہوئی پیداوار کی طلب کو پورا کرنے سے قاصر تھیں۔
سرمایہ داری کے زندہ رہنے کے لیے اسے نئی جگہوں تک پھیلانے کی ضرورت تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت سامراجیت ایک معاشی لازمیت ہے۔
اس کے نتیجے میں، سرمایہ داری کو درکار نئی منڈیوں کی فراہمی کے لیے، قومی ریاستوں نے دنیا کے غیر سرمایہ دارانہ حصوں کا رخ کیا اور ان کو نوآبادیات بنایا۔ برطانیہ، فرانس، اسپین اور دیگر یورپی طاقتوں کی سلطنتوں نے ایک عالمی منڈی اور پھر ایک عالمی سرمایہ دارانہ نظام تشکیل دیا۔
تاہم اب عالمی معیشت کے پھیلاؤ کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب کوئی نئی منڈیاں نہیں ہیں جہاں مداخلت کی جاسکے۔قومی ریاست کا کردار اب ترقی پسندانہ نہیں رہا بلکہ اپنے الٹ میں بدل چکا ہے: ایک رجعت پسندانا سرحدی رکاوٹیں جو وسائل اور منڈیوں پر انفرادی طاقتوں کے غلبے کی وجہ سے مقابلے بازی اور جنگوں کا باعث بن رہی ہیں۔
آج عالمی معیشت گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اتنی جڑی ہوئی ہے، جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے پیش گوئی کی تھی، کہ اس سے نکلنا نا ممکن ہے۔
یہاں تک کہ یورپی یونین جیسے تجارتی بلاک، جو قومی ریاستوں کے باہمی انحصار کا راگ الاپتے تھے، ناکام ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین ایک دہائی سے مسلسل بحران میں ہے۔ ہم سب مل کر سرمایہ داری سے چھٹکارا پا سکتے ہیں یا پھر کوئی بھی نہیں۔
”ایک ملک میں سوشلزم“کے نظریے کی شکست
جس طرح سرمایہ داری عالمگیر ہے، اسی طرح سوشلزم بھی عالمگیر ہونا چاہیے۔ حقیقی مارکسیوں کا ہمیشہ یہ نقطۂ نظر رہا ہے کہ ’ایک ملک میں سوشلزم‘ کی تعمیر ناممکن ہے۔ سوشلزم سرمایہ داری سے زیادہ ترقی یافتہ ہوگا جو پوری دنیا کے وسائل کے درست استعمال اور عالمی سطح پر محنت کی تقسیم سے ممکن ہے۔
اس کے شواہد تاریخ میں اور دورِ حاضر کی کئی مثالوں میں موجود ہیں۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب کے بعد دنیا بھر میں ایک انقلابی لہر دوڑ گئی۔ تاہم مزدور طبقے کے رہنماؤں کی غداری کی وجہ سے یہ دوسرے انقلابات، جیسے جرمنی اور اٹلی میں، شکست سے دوچار ہوئے۔
اس نے روس (بعد میں سوویت یونین) کو تنہا کر دیا: دیگر انقلابات کی ناکامی کی وجہ سے اسے انقلاب دشمن سامراجی طاقتوں نے گھیر لیا۔
لینن نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ روسی انقلاب کو جرمنی کے انقلاب کے لیے قربان کر دے گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک میں کامیابی کے بغیر روس میں سوشلزم کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ روس میں سرمایہ داری کی پسماندگی اور کم ترقی نے بیوروکریسی کے لئے راہ ہموار کی۔
1920ء کی دہائی کے اوائل میں روس کی معیشت برسوں کی جنگ اور سامراجی طاقتوں کی جارحیت سے تباہ ہو چکی تھی۔ خانہ جنگی کی وجہ سے ہونے والی اموات اور تھکاوٹ اور دنیا بھر میں انقلابات کی شکستوں نے بہترین محنت کش کارکنوں کو سیاسی سرگرمیوں سے باہر کر دیا۔
سماج میں عمومی قلت کے باعث، نظام کو چلائے رکھنے کے لیے بیوروکریسی لازمیت بن کے سامنے آئی۔ اور ظاہر ہے کہ کسی اور ملک میں انقلاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیوروکریسی اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے محنت کش طبقے سے مزید بیگانا ہوتی گئی۔ بیوروکریسی کی اس پرت کا نمائندہ سٹالن تھا۔
مختصراً، یہیں سے سوویت یونین کے زوال کا آغاز ہوا: پرولتاریہ کی آمریت میں کمی کے تناسب سے بیوروکریسی کی آمریت میں اضافہ۔ وسیع پیمانے پر وسائل موجود ہونے کے باوجود، معیشت پر بیوروکریسی کی جکڑ پورے نظام کے انہدام کا باعث بنی۔
آج ہم کیوبا پر اس تنہائی کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ سوویت یونین کو درپیش مسائل کی طرح، اس چھوٹے جزیرے (کیوبا) کا، امریکہ کی طرف سے جاری کئی دہائیوں سے جاری، اشیا کی ترسیل پر پابندی سے،گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ کیوبا اب سنگین معاشی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس کا نتیجہ انقلاب مخالف مظاہروں اور بیوروکریسی کے ایک حصے کے سرمایہ داری کی بحالی کی سمت بڑھنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
ایک کا دکھ سب کا دکھ
آخر میں اہم بات یہ ہے کہ بورژوازی کے تسلط کے نتیجے میں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف پوری دنیا میں محنت کش طبقہ متحد ہے۔
مثال کے طور پر برطانوی محنت کش طبقہ، جوخوفناک بے روزگاری اور کٹوتیوں کا سامنا کر رہا ہے، کی زندگی برطانوی بورژوازی سے نہیں بلکہ چین کے مل مزدوروں اور پیرو کے کان کنوں سے ملتی جلتی ہے۔ یہ تمام مزدوروں،وہ کہیں سے بھی ہوں، کے مفاد میں ہے کہ وہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں اور سماج کو تبدیل کریں۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سوشلزم کے لیے بین الاقوامی جدوجہد کا نظریہ نیا نہیں ہے۔ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا تھا کہ ”مزدوروں کا کوئی وطن نہیں ہوتا“۔ مارکسیوں نے1868ء میں ’انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن‘ سے لے کر 70 سال بعد چوتھی انٹرنیشنل اور اس کے بعد بھی ایک کے بعد ایک کئی بین الاقوامی تنظیمیں بنائیں۔
مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سب گروہ زوال کا شکار ہوئے اور اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پائے۔ تاہم آج ہمارے پاس ایک ایسی تنظیم بنانے کی صلاحیت ہے جو بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ سوشلزم کی تعمیر کرے، ایسا نظام جو امیروں کی بجائے مزدور طبقے کی ضروریات کو پورا کرے۔
ہم اس وقت سرمایہ داری کی تاریخ کے بدترین بحران کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر جگہ انقلابی دھماکوں کے لیے حالات پک کر تیار ہوچکے ہیں۔ کولمبیا سے امریکہ اور میانمار تک دنیا بھر میں محنت کش جاگ رہے ہیں۔ ہمارا سوشلزم بین الاقوامی ہونا چاہیے ورنہ یہ قائم نہیں رہے گا۔ عالمی انقلاب کی جانب بڑھو!