جامعات کے سپروائزر؛ اساتذہ کے روپ میں بھیڑئیے

|تحریر: عرشہ صنوبر|

پچھلے دنوں کراچی میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ایک تو میرے رونگٹے کھڑے کر دیے اور دوسرا ایک عرصے سے اس مسئلے پر میرے د ل میں پکتا لاوا بہنے کو تیار ہو گیا۔ مختلف لوگوں کو اس جیسے اور اس سے جڑے دیگر مسائل کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوتے اور ڈپریشن میں جاتے دیکھ کر میرے دل میں بھی ہزاروں طلبہ کی طرح اس مسئلے کے لیے بے بسی اور اذیت سے بھرپور نفرت موجود تھی۔ خبر تھی کہ جامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر میں پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ نے سپروائزر کے ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ خبر پڑھتے ہی میرے ذہن میں وہ تمام جاننے والے آ گئے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی میں اپنے اپنے سپروائزروں کے ظلم اور استحصال کی چکی میں پِس رہے ہیں اور سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ڈگریاں نہیں پا سکے جو کہ ”ہنر مندوں“ کو باآسانی مل جاتی ہیں۔ یہ چند احباب جنہیں میں جانتی ہوں اور ان جیسے ہزاروں لاکھوں وہ طلبہ جنہیں میں نہیں جانتی لیکن وہ بھی اس سسٹم میں بُری طرح پِس رہے ہیں، سب کا سوچ کر دل بھر آیا۔ علم جیسی مقدس چیز آج ایک کاروبار اور گھناؤنا کھیل بن چکا ہے۔ اور معلمی جیسا قابلِ احترام پیشہ ان لوگوں کے باعث اس قدر نچلے درجے پر آ چکا ہے کہ اس پیشے کے تقدس کی لاج رکھنے والے استاد بھی اب انہی مشکوک نظروں کی زد میں آ رہے ہیں۔

پاکستانی جامعات میں سپروائزری کی پوسٹ پر ایسے ایسے کام چور اور نالائق لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو بس طلبہ کے سر پر چڑھ کر ناچنا جانتے ہیں۔ سپروائزرز اور ان کے ڈھائے جانے والے مظالم گنتی سے باہر ہیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر سپروائزر اور طالبعلم کے تعلق میں ایک نئے پلاٹ سے بنتی ہے اور ہر کہانی میں استحصال کا طریقہ عام طور پر بالکل انوکھا اور نیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا شمار آسان نہیں۔ اس کے باوجود اس استحصال کے جو جو طریقے دیکھے بھالے ہیں اور یاداشت میں ہیں ان میں سے عمومی طور پر پیش آنے والوں میں سے چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

1۔ ہر یونیورسٹی میں ایسے سپر وائزر، جن کے پاس طلبہ کو دینے کے لیے وقت نہیں ہوتا اور ان کے پاس ایسی پوسٹ ہوتی ہے جس پر سوال اٹھانے والے دور دور تک ناپید ہوتے ہیں یا انہوں نے سوال کرنے والوں سے ہی رشتے داریاں بنا لی ہوتی ہیں، جان بوجھ کر ذہین بچوں کو اپنی سپرویژن میں لے لیتے ہیں تاکہ پورے تھیسس کے دوران وہ باقی طلبہ کو منہ بھی نہ لگائیں۔ تب بھی طالبعلم گولڈ میڈل جیت جائیں، جو کہ مکمل طور پر اس گولڈ میڈل جیتنے والے طالبعلم کی اپنی ذاتی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، تو سپروائزر اس پر یوں فخر کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تیار کردہ پراڈکٹ تھی۔ اور جان توڑ محنت کرنے والے طالب علم کے خون سے دیا جلا کر یہ سپروائزر اپنا نام روشن کرتے ہیں۔

2۔ ایسے سپروائزر جن کی کسی طالبعلم کے ساتھ کسی بھی بات پر ذاتی رنجش بن جائے، چاہے وہ طالبعلم کا کسی بھی مشکل کام سے انکار کرنا ہو جن میں اکثر ایسے کام ہوتے ہیں جو کہ طالبعلم کی ذمہ داری نہیں ہوتے، تو ان رنجشوں پر سپروائزر بنا تفریق لڑکی ہو یا لڑکا اور سپروائزر بھی مرد ہو یا عورت اس کے تھیسس ایسے ان دیکھے مسئلوں کے نام پر لٹکا دیتے ہیں جنہیں وہ خود بھی ٹھیک سے واضح نہیں کر پاتے اور جب طالبعلم مسئلے کو سمجھ نہیں پاتاتو اس بات کو اس طالبعلم کی کند ذہنی قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر جب تک وہ طالبعلم ان کا وہ کام نہیں کر دیتا یا کسی بھی طرح جب تک ان کے سینوں میں ٹھنڈ نہیں پڑ جاتی ان کا تھیسس آگے سے آگے سمیسٹر میں لٹکتا چلا جاتا ہے جس سے نہ صرف طالبعلم کا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ اسے ہر سمیسٹر کی نئے سرے سے فیس بھی دینا پڑتی ہے اور یوں اس پر فیسوں کا ایک الگ بوجھ ہوتا ہے۔

3۔ وہ سپروائزر جن کی نظر طالبات پر ہوتی ہے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ ایسے سپروائزر عمومی طور پر طالبات کو واضح الفاظ میں نہیں کہتے لیکن وہ ان کے کام اور تھیسس کو لٹکاتے چلے جاتے ہیں تاکہ کسی طرح طالبہ سمجھ جائے کہ اس سے کیا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ان کی مراد پور ی ہو جائے۔ بعض دفعہ واضح الفاظ میں بھی مطالبہ کر لیتے ہیں لیکن طالبات ایک تو ڈگری پر لگے سال اور پیسے ضائع ہو جانے کے ڈر سے اور دوسرا اپنی ہی بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتا بھی نہیں پاتیں اور نتیجہ خودکشی یا ڈگری چھوڑ دینے کی صورت میں نکلتا ہے ورنہ ان کی مراد پوری کر کے اپنی ڈگری، پیسہ اور ”عزت“ بچاتی ہیں۔

4۔ تقریباً سارے سپروائزر ہی طلبہ کی تحقیق کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں اور اس میں سے اپنے نام سے ریسرچ پیپرز چھپوانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہزاروں ریسرچ پیپر بنا کر بغیر کسی محنت اور تحقیق کے مفت میں محقق اور مصنف بن جاتے ہیں۔ اگر ان سے پہلے ہی طابعلم اپنے تھیسس میں سے اپنے نام سے کوئی پیپر چھپوانے کی غلطی کر لے تو ایک پوری انکوائری بٹھا دی جاتی ہے اور طالبعلم کا تھیسس خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس طرح طالبعلم اپنے ہی لکھے ہوئے تھیسس کے ریسرچ پیپر کا یا تو ”شریک مصنف“ (Co-Author) ہوتا ہے یا پھر اس کا نام کہیں پر بھی نہیں ہوتا۔

5۔ یہ سپروائزر صاحبان چونکہ استاد ہوتے ہیں اس لیے وہ اس ”استادی حق“ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ سے اپنے ذاتی کام کروانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اپنے جاری تھیسس، اپنے گھریلو کام، دفتری امور جیسا کہ بچوں کے پیپر بنوانا، چیک کروانا اور اس طرح کے کئی دیگر کام وہ اپنی سپرویژن میں شامل طلبہ سے بِنا کسی ہچکچاہٹ کے کرواتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں طلبہ کے پاس انکار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اپنے تھیسس کی تحقیق کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا اور ان کا کام یوں بھی لٹک جاتا ہے۔

6۔ یونیورسٹیوں کے سپروائزر ”سافٹ فارم“ میں تھیسس چیک کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ہارڈ کاپی نکلوانے پر پیسے لگوانے کے بعد غلطیاں نکال نکال کر پورا فولڈر ضائع کر دیتے ہیں۔ ہر بار چیک کرنے کے لیے نیا ہارڈ پرنٹ مانگتے ہیں او رطلبہ کا ہزارہا روپیہ اس طرح سے ضائع کرواتے ہیں۔ اس پر پی ایچ ڈی کے تھیسس میں گرامر چیکنگ کے لیے لوکل چیکرز پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ کسی بیرون ملک سے پروف ریڈنگ سرٹیفیکیٹ لینے کو کہتے ہیں۔ یہ سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے ڈالرز اور پاؤنڈز میں وہاں کے حساب سے پیسے دینے پڑتے ہیں جو سمیسٹر کی فیس کے برابر پڑ جاتے ہیں۔

7۔ بہت سے سپروائزر تو محض اس لیے تھیسس کو رد کر کے دوبارہ لانے کو کہتے ہیں کہ کہیں طلبہ یہ نہ سمجھ لیں کہ تھیسس اور ڈگریاں لینا آسان کام ہے۔ طلبہ کو دور دراز کے علاقوں سے بلوایا جاتا ہے، بغیر دماغ لگائے اس پر دو چار آبجیکشن لگائے اور اگلی بار پھر آنے کا محض اس لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ طلبہ کو یہ علم بھی ہو جائے کہ یہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بڑی محنت سے ہوتی ہیں، بڑی مشکلیں ہوتی ہیں یہ ڈگریاں لینے اور ڈاکٹر کہلوانے میں۔ مگر ان ساری مشکلات کا موضوع کی پیچیدگی اور تحقیق کی محنت سے عموماً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ساری مشکلات طالبعلم پر تعلیم کے دائرے سے باہر والی ہی ڈالی جاتی ہیں۔ کیونکہ تعلیم سے اپنا ناتا یہ اتنا ہی رکھتے ہیں جتنا کہ ان کے عہدے اور نوکری کا ناتا ان سے جڑا رہے۔

مندرجہ بالا بتائے گئے استحصال کے ان طریقوں کے علاوہ بھی سپروائزروں کے استحصال کرنے کے بے شمار طریقے ہیں جن کا طالبعلم کو علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کا کہاں کہاں اور کس کس طرح سے استحصال ہو رہا ہے۔ طلبہ کو دور دراز کے علاقوں سے میٹنگ کے لیے وقت پر آنے کا کہہ کر خود غائب ہو جانا، میٹنگ میں چلے جانا یا کسی بھی بِنا پر میٹنگ منسوخ کر دینا، پاس بٹھا کر گھنٹوں اپنے کاموں میں لگے رہنا یا ساتھ بیٹھے ساتھیوں کے ساتھ باتیں کیے جانا اور ایسے ہی بظاہر نہ نظر آنے والے ہزاروں ہتھکنڈے اور رعونت بھری حرکتیں ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ طالبعلم کے لیے بے حد تکلیف دہ استحصال ہے۔ طالبعلم کا وقت اور پیسے ضائع کرتے ہیں اور ذہنی اذیت علیحدہ بڑھتی جاتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ فوری طور پر ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟

ایسے تمام مسائل جن کا سامنا طلبہ کو کرنا پڑتا ہے ان کا حل ایک ہی ہے کہ طلبہ یونین بحال کی جائے۔ وہ تمام مسائل جن کا سامنا طلبہ کو ہے ان مسائل کے بارے میں ہونے والے فیصلوں میں طلبہ کو برابر کی شراکت دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ یونین سے پابندی فوری طور پر ختم کرتے ہوئے ہر تعلیمی ادارے میں یونین کے انتخابات کروائے جائیں جو اس ادارے میں ہونے والے تمام تر استحصال کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھا سکے۔ طلبہ قیادت ہی اس مسئلے کا حل ہے جس کی یہاں کے حکمران اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اجازت نہیں دیتے۔ یہاں طلبہ قیادت سے مراد ایسی تنظیمیں نہیں ہیں جنہوں نے طلبہ یونین کے نام پر بدمعاشی اور ظلم کا دھندہ کھول رکھا ہے اور طلبہ یونین کے قیام کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس یونین کا مقصد محض طلبہ کے تعلیمی نظام سے وابستہ مشکلات اور مسائل کے لیے حل کی راہ ہموار کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات پورے کرنے یا استحصال سے ہاتھ اٹھا لینے پر راضی نہیں جس کی وجہ سے ہر تعلیمی ادارے میں طلبہ یونین پر پابندی ہے اور طلبہ کے لیے اپنے مسائل پر بات کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں جس کے باعث ڈپریشن اور ذہنی تناؤ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور وہ اپنی ڈگریوں یا اپنی زندگیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ برا کر دیتے ہیں۔ اس طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے ایسے مسائل سے مکمل اور مستقل طور پر چھٹکارا ممکن نہیں۔ اس لیے اس طبقاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل سوشلسٹ انقلاب ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.