|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈیرہ غازی خان|
ڈیرہ غازی خان کے طلبہ کم از کم پچھلے ایک ہفتے سے فزیکل امتحانات کے اعلان کے خلاف جدوجہد میں متحرک رہے ہیں۔ 25 جنوری کو طلبہ علی الصبح کالج چوک پر فیزیکل امتحانات کے فیصلے کے خلاف اور آن لائن امتحانات کے مطالبے کی منظوری کے لیے احتجاج میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور چند گھنٹوں میں احتجاجی طلبہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ تونسہ سے بھی طلبہ بہت بڑی تعداد میں احتجاج میں شرکت کرنے کے لیے وفد کی صورت میں کالج چوک پہنچے۔ اسی طرح میر چاکر رند یونیورسٹی کے طلبہ بھی بہت بڑی تعداد میں ریلی کی صورت اختیار کرتے ہوئے احتجاج میں شامل ہوئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے احتجاج کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی طلبہ کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔ کالج چوک پر دو گھنٹے دھرنا دینے کے بعد طلبہ نے ریلی کی صورت میں پاکستان کی ایک اہم شاہراہ پُل ڈاٹ کا رخ کیا۔ تقریباً دن 12 بجے طلبہ نے پُل ڈاٹ سے نکلنے والے تمام راستوں کو مکمل طور پر بند کر دیا اور رات دیر تک طلبہ نے تمام راستوں کو مکمل طور پر بند رکھا۔ پورا دن گزر جانے کے باوجود حکومت یاکسی بھی یونیورسٹی کا کوئی بھی نمائندہ طلبہ سے ملنے نہیں آیا اور غازی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یہ موقف اپنایا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ ان کی یونیورسٹی کے نہیں ہیں۔ اس کے بعد طلبہ نے تمام راستوں پر خیمے لگا کر مستقل کیمپ لگانے شروع کر دیے اور احتجاج کو دھرنے میں بدل دیا۔
تقریباً رات 12 بجے میر چاکر یونیورسٹی کے ایک نمائندے نے آ کر طلبہ کے مطالبات ماننے کا اعلان کیا۔ لیکن غازی یونیورسٹی کا وی سی اپنی ضد پر قائم رہا۔ اس کے بعد طلبہ نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا اور احتجاج کے آرگنائزرز نے سخت سردی میں بستروں کے بغیر رات خیموں میں گزاری۔ اگلے دن علی الصبح طلبہ کی بڑی تعداد احتجاجی دھرنے میں دوبارہ سے شریک ہو گئی۔ دوسرے دن صبح آٹھ بجے سے لے کر دن دو بجے تک طلبہ کا دھرنا پُل ڈاٹ پر جاری رہا۔ اس کے بعد طلبہ نے یونیورسٹی کے مین گیٹ کی طرف مارچ کیا اور یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے دیا۔ دو گھنٹے دھرنا دینے کے باوجود بھی جب یونیورسٹی انتظامیہ کا کوئی نمائندہ نہیں آیا تو طلبہ نے وی سی ہاؤس کی طرف مارچ شروع کر دیا اور وی سی ہاؤس کے سامنے جا کر دھرنا دیا۔
طلبہ کی اپنے فیصلے پر ثابت قدمی اور جوش و خروش نے بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ کو طلبہ کے فیصلے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور طلبہ کو مذاکرات کے لیے بلایا گیا۔ اسی اثناء میں یونیورسٹی انتظامیہ نے امتحانات کی منسوخی اور یکم فروری سے کلاسوں کے اجراء کا اعلان نامہ بھی جاری کر دیا جسے طلبہ نے مکمل طور مسترد کیا۔ شام 5 بجے کے قریب پولیس کی بھاری نفری نافذ کر کے طلبہ کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی گئی اور طلبہ پر لاٹھی چارج کرنے کے احکامات جاری کیے گئے لیکن طلبہ کی ہزاروں کی تعداد اور دو دن کے مسلسل احتجاج اور ریلیوں کے دباؤ کے خوف سے انتظامیہ ایسا قدم اٹھانے سے باز رہی۔
بالآخر طلبہ کو کہا گیا کہ وہ مذاکرات کے لیے آئیں، یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ کامیاب مذاکرات کے بعد آن لائن امتحانات کا اعلان نامہ جاری کر دیا گیا لیکن اس کو آنے والے عرصے میں حکومت کے فیصلے سے بھی مشروط رکھا گیا۔
احتجاج کی سب سے منفرد اور خوش آئند بات طلبہ کا احتجاج میں جوش و خروش اور ثابت قدمی کے ساتھ شامل رہنا اور احتجاج کے تمام تر انتظامات کو پُرامن طریقے سے سنبھالنا تھا۔ طلبہ کئی کئی گھنٹوں تک ہاتھوں کی زنجیریں بنا کر ٹھہرے رہے اور اس دوران ایمبولینس اور خواتین و بزرگ شہریوں کے لیے راستہ بند نہیں کیا گیا بلکہ طلبہ خود آگے بڑھ کر ان کے لیے راستہ بناتے رہے۔ ڈیرہ غازی خان کے طلبہ کا فتح یاب احتجاج پاکستان بھر میں اٹھنے والی نئی طلبہ تحریک کی دستک ہے۔