|ر پورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
27نومبر 2018ء بروز منگل ، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بلوچ اور پشتون طلبہ کی جانب سے مشترکہ احتجاج کیا گیا۔ احتجاج شام سات بجے شروع ہوا۔ طلبہ مین کیفے ٹیریا سے مین گیٹ کی جانب ایک ریلی کی صورت میں نکلے ۔ ریلی کے دوران طلبہ نے انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔مین گیٹ پر پہنچنے کے بعد طلبہ کی جانب سے مین گیٹ بند کر دیا گیا۔احتجاج کافی دیر تک چلتا رہا مگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی مزاکرات کرنے نہ آیا ۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد بالآخر انتظامیہ کا ایک نمائندہ مظاہرین سے مزاکرات کرنے آیا۔ مگر مزاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔ انتظامیہ کا خیال تھا کہ شاید پہلے کی طرح طلبہ کو ڈرا دھمکا کے احتجاج ختم کرا لیا جائے گا ، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس بار طلبہ کو جب ڈرایا دھمکایا گیا اوریہ کہا گیا کہ تم بے غیرتوں نے احتجاج کیسے کیا؟ اب ہم تمہارے خلاف بھرپور کاروائی کریں گے ۔ تمہارے پہلے جتنے بھی ری ایڈمیشن ہم نے کرائے ہیں انہیں ہم منسوخ کریں گے (یہ پچھلے کامیاب احتجاج میں طلبہ نے کروائے تھے) ،2013سے لے کر 2017تک جتنے بھی طلبہ آئے ہیں ان سب سے فیسیں بھی لیں گے اور احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف سنگین کاروائی بھی کریں گے تو طلبہ شدید غصے میں آگئے اور پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کر دیا۔
اس کے بعد طلبہ نے تب تک مین گیٹ پر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا جب تک انکے مطالبات مان نہیں لیے جاتے۔ بہت سے طلبہ ہاسٹلوں سے اپنے بستر بھی وہیں لے آئے اور ساری رات وہیں سونے کا منصوبہ بنا لیا۔اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کا پچھلا گیٹ (ایگری گیٹ) بھی طلبہ نے بند کر دیا۔دونوں گیٹ بند ہونے پر انتظامیہ کافی تذبذب کا شکار ہوگئی اور اسی بوکھلاہٹ میں ایک پروفیسر نے پشتون اور بلوچ طلبہ کو دہشتگرد کہنا شروع کر دیا اور یہ کہنے لگاتمہیں ڈاخلہ دیتا تھا یہاں کوئی، ہم نے تمہیں یہاں داخلے دیے ہیں۔ پھر سیکورٹی کو انکی چادریں اتارنے کو کہا اور ساتھ یہ کہا کہ دیکھو انہوں نے چادروں کے نیچے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہونگے۔
اسکے بعد طلبہ کا غصہ اپنی انتہاوں کو پہنچ گیا۔ اسی دوران سیکورٹی انچارج کے بیٹے نے جب مین گیٹ سے باہر جانے کوشش کی تو طلبہ نے اسے روک دیا۔ اس پر سیکورٹی انچارج اور آر او خود وہاں پہنچ گیا اور طلبہ کے ساتھ ہاتھ پائی شروع کر دی۔ مگر طلبہ نے اسے باہر جانے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ طلبہ نے آر او (ریذیڈنٹ آفیسر) کو بھی دھکے دے کر گیٹ سے باہر نکال دیا۔ اس موقع پر طلبہ کا غصہ انکے بلند و بانگ نعروں سے صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ سب شدید غصے میں تھے۔
اسکے بعد بالآخر انتظامیہ نے حالات کو دیکھتے ہوئے گھٹنے ٹیکنے کا اعلان کیا۔ اور انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کی واحد مانگ (نئے لڑکوں کی الاٹمنٹ کرانا) کو منظور کر لیا گیا۔جبکہ شروع میں کہا جا رہا تھا کہ ہمارے پاس جگہ بھی نہیں ہے اور آپ لوگوں کا کوٹہ بھی پورا ہو چکا ہے اورری ایڈمیشن کو بحال کرنا آپ لوگوں پر ہمارا احسان ہے وغیرہ۔
طلبہ اتحادکی طاقت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ اگر اکٹھا ہو کر لڑا جائے تو وہ تمام مانگیں جنہیں انتظامیہ ناممکن قرار دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ انہیں کسی بھی صورت پورا نہیں کیا جاسکتا، وہ بھی پوری ہو جاتی ہیں۔
بلوچ اور پشتون طلبہ کو آج یہ بات سمجھ لینی ہو گی کہ ملک گیر طلبہ اتحاد ہی وہ قوت ہے جس کے ذریعے تمام تر جائز مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ ابھی بھی بلوچ اور پشتون طلبہ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ انتظامیہ انکے خلاف وقت ملنے پر بھرپور انتقامی کاروائی کرے گی ۔ اور اس انتقامی کاروائی کا جواب صرف اور صرف طلبہ اتحاد کی صورت میں ہی دیاجا سکتا ہے۔ یہ اتحاد صرف طلبہ یونین کی بحالی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ایک پلیٹ فارم پر سب طلبہ کو اکٹھا کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں بھی متحد ہو کر لڑا جا سکے اور اپنے جائز مطالبات منوائے جا سکیں۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – ملتان: بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹلوں پرپولیس کے چھاپے ، غنڈہ گردی نامنظور!