|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
10 نومبر 2019ء کو لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے اچھرہ میں سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا، جس میں نمل یونیورسٹی، پنجاب کالج، لیڈز یونیورسٹی، ایم اے او کالج، جی سی یونیورسٹی اور دیگر اداروں سے طلبہ نے شرکت کی۔ سٹڈی سرکل کا موضوع ”طلبہ یونین کا کردار اور اس کی بحالی“ تھا۔ سٹڈی سرکل کو چیئر پی وائے اے سے آکاش نے کیا اور پروگریسو یوتھ الائنس کے تعارف کے ساتھ مطالبات اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔ بحث کا آغاز رائے اسد نے کیا۔
رائے اسد نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی عائد ہوئے سالوں بیت چکے ہیں۔ اس سارے عرصے میں طلبہ کو سیاست سے دور رکھا گیا لیکن آج ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا سیاست سے دوری کا نوجوانوں کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ طلبہ کے مسائل کم ہوئے ہیں یا نا قابلِ برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں؟ ہر فرد جانتا ہے کہ جواب کیا ہے۔ اس لیے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکمران طبقہ طلبہ سیاست سے کیوں خوفزدہ ہے۔ اس خوف کے پیچھے طلبہ سیاست کی تاریخ ہے جسے لوگوں کی یاداشتوں سے مٹایا گیا ہے۔ آج اداروں کے اندر موجود تمام سہولیات حکمرانوں کی دریا دِلی نہیں بلکہ طلبہ یونین کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ 1968ء کی انقلابی تحریک کا آغاز نوجوانوں سے ہی ہوا تھا جس نے بعد میں ایوب خان جیسے آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ آج نوجوان ماضی کی نسبت زیادہ مشکل حالات کا شکار ہیں لیکن ان مسائل کے خلاف جدوجہد کرنا تو دور، بات کرنے کے لئے بھی کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی ہی نوجوانوں کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔
رائے اسد نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اداروں کے اندر موجود جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو طلبہ سیاست کا چہرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ طلبہ میں سیاست سے نفرت پیدا کی جا سکے۔ طلبہ یونین میں جمہوری طریقے سے طلبہ کے منتخب نمائندے شامل ہوتے ہیں جن کے پاس انتظامیہ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یونین کی موجودگی ہی اس بات کی ضمانت دے سکتی ہے کہ اداروں میں کیے جانے والے فیصلوں میں طلبہ کی رضا شامل ہو۔ لیکن طلبہ یونین سے پابندی کا خاتمہ کسی حکمران طبقے کی پارٹی کے ذریعے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے نوجوانوں کو منظم ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس اسی جدوجہد کو پورے پاکستان میں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کے بعد شرکاء کی طرف سے سوالات کیے گئے اور انہوں نے بحث میں بھرپور حصہ لیا۔ آخر میں پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے شرکاء کو لاہور میں ہونے والے کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ طلبہ نے پی وائے اے کی اس کوشش کی خوب پذیرائی کی اور اس جدوجہد کا سرگرم حصہ بننے کی یقین دہانی کروائی۔