موجودہ دور میں طلبہ کے مسائل

|تحریر: مریم عابد|

Students problems of Current Era

اس وقت پوری دنیا کو کرونا وبا کا سامنا ہے اور حسبِ معمول باقی مسائل کی طرح دنیا بھر کے حکمران اس وبا کو روکنے اور اس سے جڑے تمام مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حکمرانوں کی نا اہلی اور منافع خوری کی وجہ سے اس خطرناک وبا سے لاکھوں جانیں جا چکی ہیں لیکن ابھی تک اس کا کوئی علاج یا ویکسین نہیں بن سکی۔ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کیا گیا تھا جو اب تقریبا برائے نام ہی رہ گیا ہے جبکہ درحقیقت معمولاتِ زندگی جوں کے توں جاری ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی بند کردیے گئے ہیں تاکہ اس وبا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے جس کے بعد ایچ ای سی اور یونیورسٹیز مافیا نے اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے منافعوں کا تحفظ کرتے ہوئے زمینی حقائق کو دیکھے بغیر آن لائن کلاسز کا آغاز کیا۔ یہ عام سی بات ان پالیسی سازوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان جیسے ملک میں ایک ڈیجیٹل تفریق موجود ہے اور گلگت سے لے کر گوادر تک چند بڑھے شہروں کو چھوڑ کر زیادہ ترعلاقوں میں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو بہت کم رفتار ہے جس سے آن لائن کلاسز لینا ناممکن سی بات ہے۔ آن لائن کلاسز کے لئے اچھے معیار کے سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے جو اکثر طالبِ علموں کے پاس موجود نہیں ہیں۔ ان طالبِ علموں کے لئے یہ حل نکالا گیا ہے کہ وہ اپنا سیمسٹر فریز کر لیں یعنی کے چھ ماہ کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی دی ہوئی فیسیں بھی ضائع کریں۔ اب ایسے حالات میں طلبہ کا پیسہ اور وقت ضائع کر کے انہیں کون سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جارہا ہے یہ عام انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان نام نہاد پالیسی سازوں کا مقصد میعاری تعلیم کی یقین دہانی نہیں بلکہ اپنے مالکان کے منافعوں کو بچانا ہے۔

تعلیم کا دھندہ کرنے والوں کا اصلی چہرہ اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں نے تدریسی فیسوں کے ساتھ، لائبریری، ٹرانسپورٹ، سپورٹس، اور دیگر مدوں میں فیسیں وصول کر رکھی ہیں جو ابھی تک واپس نہیں کی گئی اور نہ ہی فیس واپسی یا معافی کا کوئی ارادہ دکھائی دے رہا ہے۔ جو طلبہ کسی مجبوری کے باعث فیس جمع نہیں کرا سکے تھے ان کو فیس جمع نہ کروانے کی صورت میں امتحان میں نہ بیٹھنے دینے اور فیل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں جب محنت کش خاندانوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں وہ اپنے بچوں کی فیسیں کہاں سے جمع کرائیں گے؟

No-online-classes-without-Resources

جن یونیورسٹیز نے آن لائن کلاسز شروع کر رکھیں ہیں، اول تو ان میں سے اکثریت کے پاس اپنا آن لائن لرننگ مینجمنٹ سسٹم موجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی اساتذہ کے پاس آن لائن تدریسی عمل کی ٹرینگ اس لیے یہ ادارے مجموعی طور پر اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ایسی صورتحال میں آن لائن کلاسز مناسب طریقے سے جاری رکھ سکیں۔ اکثر اس آن لائن لرننگ مینجمنٹ سسٹم کا سرور کام نہیں کرتا یا پھر بہت آہستہ کام کرتا ہے جس سے سٹوڈنٹس کا اکاؤنٹ لاگ ان ہی نہیں ہو پاتا۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ یا تو سٹوڈنٹس کو یوٹیوب کی ویڈیوز کا لنک شیئر کیا جاتا ہے یا پھر زوم اور دیگر ویڈیو میٹنگ ایپلیکیشنز پر کلاس لی جاتی ہے جس کی ٹیچرز کو پہلے سے کوئی ٹریننگ نہیں دی گئی اور اسی وجہ سے کبھی ان سے سکرین شیئرنگ نہیں ہو پاتی تو کبھی ان کا آڈیو کنیکٹ نہیں ہو تا اور وہ بنا آڈیو کنیکٹ کیے اپنا سارا لیکچر دے دیتے ہیں۔

آن لائن کلاسز کے لئے درکار وسائل کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے شدید ناکامی کے بعد اب آن لائن امتحان لینے کی بات کی جا رہی ہے۔ جس طرح آن لائن کلاسز کو کامیابی سے ناکام بنایا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے آن لائن امتحانوں کا کیا حشر ہو گا۔

کیا ہم آن لائن کلاسز یا آن لائن امتحان کے خلاف ہیں؟ نہیں! ہر گز نہیں۔ آن لائن کلاسز اس وقت ایک تاریخی ضرورت بن چکی ہیں۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ اس وبا پر کب تک قابو پا لیا جائے گا اس لئے غیر معینہ مدت تک تعلیمی سرگرمیاں بند نہیں رکھی جا سکتیں، مگر آن لائن کلاسز کے لئے درکار وسائل، جن میں طلبہ کو مفت اور معیاری انٹرنیٹ، لیپ ٹاپس، ٹیچرز کو ٹریننگ اور دیگر وسائل کی فراہمی یہ وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کی ریاست کی طرف سے فراہمی کے بعد ہی آن لائن کلاسوں کو جاری رکھا جا سکتا ہے، اور اگر ان تمام تر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بغیر آن لائن کلاسوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے تو پھر یہ یقینا قابلِ مزاحمت عمل ہے.

وبا کے دوران جب تک آن لائن کلاسز لی جا رہی ہیں نا صرف اس سیمسٹر کی فیس طلبہ کو واپس کی جائے بلکہ وبا کے مکمل خاتمے تک فیسیں مکمل طور پر معاف کر دی جائیں، اور جو نجی یونیورسٹی مالی وسائل نہ ہو نے کا ڈرامہ کریں اور طلبہ سے ذبردستی فیس لینے کی کوشش کریں یا ان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کریں ان کے کھاتے کھولے جائیں اور ان کو قومی تحویل میں لے کر حکومت ریاستی وسائل سے چلائے۔

ساتھیو! اب وقت آ گیا ہے کے ہم سب طلبہ مل کر نا صرف اس تعلیم کے کاروبار کہ خاتمے اور مفت تعلیم تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں، بلکہ محنت کشوں اور کسانوں کی جدوجہد کے ساتھ جڑ کر اس نظام کو جو اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک انسانی سماج قائم کریں، جہاں تعلیم، علاج، خوراک کا کاروبار جرم ہوگا۔

مفت تعلیم ہمارا حق ہے! خیرات نہیں۔

تعلیم کا کاروبار۔۔ نا منظور۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.