کراچی: ڈاؤ میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل کی بحالی کی تحریک اور اس کے اسباق

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|

حالیہ وبا کے دوران سندھ حکومت کی جانب سے انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ایشن (IPMR) کو خودمختار ادارہ بنا دیا گیا اور ڈاؤ میڈیکل کالج کی تقریباً تمام پراپرٹیز سمیت بوائر ہاسٹل کی بلڈنگز کو انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ایشن (IPMR) کے حوالے کرنے کا بِل پاس ہونے کے بعد طلباء کو ہاسٹلوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد مختلف طلبہ تنظیموں سمیت پروگریسو یوتھ الائنس نے ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کو یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے ہاسٹل کی بحالی کی اس جدوجہد میں فتح کے آخری دن تک شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔پروگریسو یوتھ الائنس نے پہلے بھی ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کے احتجاج سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اسی مسئلے پر ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ رپورٹ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ڈاؤ میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل کی بحالی کے حوالے سے طلباء کے مطالبات یہ تھے کہ انہیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) پروٹوکول کے مطابق رہائش فراہم کی جائے یعنی کم از کم 20 فیصد طلبہ کے لیے رہائش کا انتظام کیا جائے۔ یہ واضح ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) پروٹوکول کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے، لہٰذا ڈاؤ میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل کے طلباء کا مطالبہ تھا کہ ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی تینوں عمارتوں سے انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ایشن (IPMR) کا قبضہ ختم کرایا جائے اور ان عمارتوں کو ان تمام سہولیات کے ساتھ بحال کیا جائے جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کے قوائد میں درج ہیں۔

ڈاؤ ہاسٹل بحالی کی تحریک گزشتہ 2 مہینے پہلے کراچی پریس کلب کے سامنے ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی جانب سے احتجاجی مظاہروں سے شروع ہوئی، اور ان احتجاجی مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ جس میں ڈاؤ ہاسٹل کے اندر اور باہر، آئی پی ایم آر، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کافی عرصہ سراپا احتجاج رہے اور اس دوران کسی بھی متعلقہ ادارے نے اور نہ ہی سندھ حکومت نے ان طلباء کے مسئلے کو سنجیدہ لیا۔ بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ اور سندھ حکومت کی بے حسی سے تنگ آ کر 13 ستمبر بروز اتوار ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء نے کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ حکومت، ڈاؤ میڈیکل کالج کی انتظامیہ اور انسٹیٹیوٹ آف فیزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ایشن (IPMR) کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ کا آغاز کیا جو مسلسل چار دنوں تک جاری رہا۔ اس بھوک ہڑتال کے دوران بغیر کھائے پیے تقریباً 6 طالب علموں کی طبیعت شدید خراب ہوئی جس کے بعد انہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے نڈر طلباء کی مہینوں پر محیط جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ 16 ستمبر کی رات سندھ حکومت کے وزیر تعلیم، ہیلتھ سیکرٹری، اور سیکرٹری تعلیم طلباء کے بھوک ہرتال کیمپ پر آنے کے لیے مجبور ہوئے، اور وزیر تعلیم سعید غنی نے طلباء کے مطالبات کو مانتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ دو ہفتوں تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے قانون کے مطابق طلباء کے ہاسٹل کا مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے بوائز ہاسٹل کی کل تین بلڈنگز ہیں جن کو طلباء سے خالی کروا کر انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ایشن (IPMR) کے حوالے کر دیا گیا اور طلبہ کی تین بلڈنگز ہونے کے باوجود ان کو رہائش کے لیے صرف تین فلور دیے گئے تھے، جس کے ہر ایک کمرے میں بڑی مشکل کے ساتھ آٹھ آٹھ طلباء کو رکھا گیا۔ 16 ستمبر کی رات سندھ حکومت سے مذاکرات کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل کے طالب علم رہنما عبدالکریم نے یہ اعلان کیا کہ وہ دو ہفتوں تک حکومت کو وقت دیں گے اور اگر دو ہفتوں کے اندر ان کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو ہاسٹل بحالی کی اپنی جدوجہد اور احتجاجوں کے سلسلے کو نئے سرے سے شروع کریں گے، جس کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء نے اپنا بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کیا۔

ہمیں ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی شاندار جدوجہد میں مختلف طلبہ تنظیموں کے ساتھ NGOs کا گٹھ جوڑ بھی نظر آیا۔ اور یہی صورتِ حال ہمیں ملک بھر میں نظر آتی ہے کہ کرونا وبا کے بعد جہاں ایک طرف پورے ملک کے تعلیمی ادارے بند کیے گئے تو دوسری طرف طلبہ سے فیسیں بٹورنے کے لیے آن لائن کلاسز کا کھلواڑ کیا گیا جبکہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہی نہیں ہے، اور فیسوں کی ہوس میں نہ صرف ایک سمیسٹر بلکہ اگلے سمیسٹر کی فیسوں کے لیے بھی طلبہ کے ساتھ ڈاکہ زنی کی گئی اور بغیر کسی سہولیات کے، نامکمل نصاب پڑھائے طلبہ سے آن لائن امتحانات لیے گئے۔ اب لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد بھی طلبہ پہ حملے جاری ہیں تو طلبہ کے احتجاجوں کا سلسلہ جو لاک ڈاؤن کے دوران بھی جاری رہا اب شدت پکڑنے کی طرف جا رہا ہے۔ جس میں کراچی یونیورسٹی، زینلک، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی اور بحریہ یونیورسٹی شامل ہیں اور آنے والوں دنوں میں اس معاملے میں مزید شدت آئے گی۔ دوسری طرف ملک کی مختلف فیکٹریوں کے محنت کش احتجاج کر رہے ہیں تو اس ساری صورتِ حال کے پیشِ نظر جب طلبہ اور محنت کشوں کی جانب سے سنجیدہ مزاحمتی تحریک ابھر رہی ہے تو وہیں پر موجود ٹریڈ یونین اشرافیہ اور NGOs کے نمائندے اپنے ذاتی مفادات کے لیے تحریکوں کو بیچنے اور کچلنے کے لیے ہمیشہ کی طرح مذاکرات پر مبنی اپنا غلیظ کردار ادا کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اب ان NGOs پر مبنی ٹریڈ یونینوں کا دھندہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا، اب طلبہ اور محنت کش ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں میں زیادہ دیر تک رہنے نہیں دیں گے۔ ڈاؤ بوائز ہاسٹل کی بحالی کی تحریک میں بھی ٹریڈ یونین اشرافیہ، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سندھ حکومت کے وفد کی کیمپ میں آمد کو اس طرح پیش کیا کہ یہ وفد ان ہی کی وجہ سے طلباء کے کیمپ میں مذاکرات کے لیے آیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی مہینوں سے جاری شاندار جدوجہد کا نتیجہ تھا جس نے حکومتی ارکان کو جھکنے پر مجبور کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھوک ہڑتالی کیمپ ختم کرنا طلباء کا درست فیصلہ ہے لیکن ہم اپنے تمام طلبہ ساتھیوں کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ کیمپ کو ختم کرنے کے بعد بھی ہمیں اپنی مکمل فتح تک جدوجہد رکھنی ہو گی، ہمیں طلبہ یونین کی بحالی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ آخر میں ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلباء کی اس شاندار جدوجہد کو ہم سرخ سلام پیش کرتے ہیں اور پروگریسو یوتھ الائنس اقتدار میں بیٹھے ان حکمرانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلبہ کے مسائل کو فی الفور حل کیا جائے اور اگر ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو بصورتِ دیگر ہم ڈاؤ میڈیکل کالج کے طلبہ کے ساتھ مل کر اس جدوجہد کو ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ تک لے جائیں گے اور ملک گیر تحریک کی جانب بڑھیں گے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.