داخلہ فیس کے نام پر طلبہ کی لوٹ کھسوٹ اور تحقیر نامنظور!

|تحریر: عثمان سیال|

آج کل بڑے بڑے اخبارات اور میڈیا چینلز پر حصول ِتعلیم کے اشتہارات کی بھر مار ہے۔ کہیں حصول ِعلم کی دعوت دی جارہی ہے تو کہیں روشن مستقبل کی نویدیں سنائی جارہی ہیں اور کہیں پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پیڈ ایڈز چلائے جارہے ہیں جس میں علمی خدمات کی لمبی لمبی فہرستوں کے بعد داخلے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اس میں نجی اور سرکاری دونوں شعبوں کے ادارے شامل ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی نوجوان اب تعلیم کے حصول سے محروم نہیں رہے گا، کوئی بیروزگا نہیں رہے گا اور اب اس ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر ادارہ نوجوانوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہے اور ساتھ ہی پر امید بھی۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ صریح منافقت ہے۔ تعلیم کے نام پر منافع خوری اور زر کی ہوس ہے۔ ’’تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے‘‘، یہ جملہ سرمایہ دارانہ نظام میں محض لفاظی ہے۔

اس ملک کا ہر شہری جانتا ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم بھی دوسرے شعبوں کی طرح انتہائی تباہ حال اور پسماندگی کا شکار ہے۔ اس خطہ کی وسیع اکثریت تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ یہ ریاست اور اس کا مقدس آئین، جو مفت تعلیم کی گارنٹی دیتے ہیں، مکمل طور پر ناکام ہیں۔ یہاں تعلیم دوسرے شعبوں کی طرح سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کے باعث ایک مکمل طور پر منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اس کاروبار سے خوب پیسہ کما رہے ہیں۔ سرکاری شعبے میں بھی بڑے بڑے مگرمچھ لوٹ کھسوٹ کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی کوئی موقع ہاتھ لگتا ہے لپک پڑتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے لے اڑتے ہیں۔ درحقیقت پاکستانی سرمایہ داری آج تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے لہٰذا تعلیم کا شعبہ بھی اس سے ماورا نہیں ہو سکتا۔ سرکار اور اس کے نمائندے اس لوٹ کھسوٹ میں برابر ملوث ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور ان کی منتخب حکومتوں کی تعلیم دشمنی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

تعلیم دشمنی ہر بجٹ میں ہمیں نظر آتی ہے۔ ہر سال اس شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کی جاتی ہے جس سے تعلیم مہنگی سے مہنگی اور محنت کش عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جاتی ہے۔ پاکستان میں پہلے بھی آبادی کے تناسب سے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوان تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پہلے بھی آبادی کی اکثریت ان تعلیمی اداروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے۔

شعبہ تعلیم کی اس زبوں حالی اور مسائل پر پہلے بھی لکھا جاچکا ہے اور بہت سی وجوہات اور مسائل کو پیش کیا جاچکا ہے لیکن اب کچھ سالوں سے جو تعلیمی اداروں نے طلبہ کی لوٹ کھسوٹ کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے وہ بہت غور طلب ہے۔ جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ اشتہارات میں نظر آنے والی تعلیم دوستی حقیقت میں منافقت ہے اور لوٹ کھسوٹ کا نیا طریقہ ہے۔ ہر یونیورسٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی داخلوں کا اجرا ہو وہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو متوجہ کرے اور اس سے منافع کمائے۔ جی ہاں منافع یعنی جب کوئی نوجوان تعلیم کیلئے درخوست دے گا تو ساتھ پیسہ بھی دے گا۔ اور اگر اس کے پاس پیسہ نہیں ہے تو وہ حصول تعلیم کا امیدوار بھی نہیں بن سکتا۔ نئے سال کے داخلوں کا اجرا کر دیا گیا ہے اور خواہش مند امیدواروں سے درخواستیں موصول کی جارہی ہیں۔ اب اس کا طریقہ کار انتہائی مضحکہ خیز بھی ہے اور خوفناک بھی۔ داخلے کا مرحلہ ایک طالب علم کیلئے سنگین ذہنی اور سخت معاشی دباؤ کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں اسے اندھا دھند مقابلہ کرنا ہوتا ہے، بہت سا پیسہ اور وقت لگانا ہوتا ہے اور مستقل عدم تحفظ کا شکار رہنا پڑتا ہے، جو انتہائی تھکا دینے والا عمل ہے۔ طالب علم شروع سے ہی نفسیاتی امراض میں مبتلا کر ہو جاتا ہے۔ داخلے کا یہ سارا عمل اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں داخل ہونے سے پہلے طلبہ کی قابلیت جانچی جائے بلکہ اس کا مقصد تعلیم کے شعبے سے منسلک سرمایہ داروں کے منافعوں کو بڑھانا اور تعلیمی اداروں کی قلت کی وجہ سے پیدا شدہ مسابقت سے فائدہ اٹھانا ہے۔

کوئی طالب علم جسے کسی یونیورسٹی کے کسی شعبے میں داخلہ لینا ہو تو اس کو پہلے یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوتا ہے پھر اس کو ایک انتہائی تفصیلی فارم بھرنا ہوتا ہے جو کہ ایک عام طالب علم کیلئے انتہائی مشکل عمل ہوتا ہے کیونکہ یہاں پاکستان میں پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت متوسط یا محنت کش طبقے کے بچوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے پاس اس تکنیکی عمل کیلئے درکار چیزیں جیسے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نہیں ہوتے۔ اسی طرح اس عمل کو آسان بنانے کیلئے کوئی مخلصانہ کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ ویسے بھی سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اشرافیہ، ججوں اور جرنیلوں کے بچے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے تو ان کے معیار کے ہی نہیں ہیں اور یہ سب حکمران طبقے کے بچوں کے مسائل ہی نہیں ہیں۔ داخلہ فارم بھرنے کے عمل سے ہی عام طالب علم کی لوٹ کھسوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ داخلہ فارم بھروانے کیلئے اسے مارکیٹ میں جاکر فارم بھرنا ہوتا ہے جس میں ایک یونیورسٹی یا اس کے کسی ایک شعبے میں اپلائی کرنے کیلئے دوکاندار اس سے فیس بٹورتا ہے، اور اگر مختلف یونیورسٹیوں میں اپلائی کرنا ہو تو ہزاروں روپے اسی عمل میں ہی خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس عمل سے ذلیل اور خوار ہو کر گزرنے پر دکاندار اس کو بینک چالان پکڑا دیتا ہے کہ یہ فیس آپ کو فلاں بینک میں ادا کرنی ہو گی اور ادا کرنے کے بعد اس چالان کو دوبارہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی طالب علم کو یا تو اپنے ڈاکومنٹس اٹیسٹ کروا کر کورئیرر کے ذریعے یونیورسٹی کو بھیجنے ہوں گے یا پھر ان کو بھی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنا ہوگا۔

اس کے بعد یونیورسٹیوں اور کالجوں کی بھاری داخلہ فیس کی صورت میں لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ فیس عام طور پر ایک ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک ہوتی ہے۔ کچھ یونیورسٹیاں ایک ہی فیس میں مختلف مضامین میں اپلائی کی اجازت دیتی ہیں جو کہ بہت کم ہیں۔ زیادہ تر تو ہر مضمون کی مد میں علیحدہ علیحدہ فیسیس وصول کرتی ہیں جو کہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے اور اس ریاست کی طرف سے انہیں یہ سب کرنے کی مکمل چھوٹ ہے۔ ایک طالب علم جو اپنی پسند کے شعبے میں یا کسی بھی شعبے میں پڑھنا چاہتا ہے اس کو مقابلہ بازی کی وجہ سے مستقبل کے تحفظ کیلئے ایک سے زیادہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اپلائی کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہاں جو میرٹ کا عمل ہے وہ اپنی بوسیدگی کی بلندی کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک طالب علم جو ریاست کے منظور شدہ ایک ادارے سے ڈگری لے کر نکلتا ہے تو کوئی دوسرا منظور شدہ ادارہ اس کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ ان کو طالب علم کی ڈگری اور طالب علم کی قابلیت پر شک ہوتا ہے اس لیے طالب علم کو ایک اور گِھن چکر سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ ہے داخلہ ٹیسٹوں کا عمل۔

یہ عمل طالبِ علم کو اور عدم تحفظ کا شکار کرتا ہے جس سے مجبوراً اس کو کئی جگہوں پر اپلائی کرنا ہوتا ہے۔ یہ فیسیں بھرتے بھرتے طالبِ علم کے گھر کی آمدنی کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ یعنی داخلہ ٹیسٹوں کا مرحلہ اور زیادہ کٹھن ہوتا ہے جو کہ طلبہ کی اکثریت کو مکمل طور پر نفسیاتی اور ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ اس میں ہر طالب علم کیلئے لازم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نمبر لے اور مقابلے میں شامل زیادہ سے زیادہ طالب علموں کو پیچھے چھوڑے تاکہ اس بِھیڑ میں اس کی کوئی جگہ بنے کیونکہ اس کے اوپر ایک بھاری معاشرتی اور خاندانی دباؤ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی خون پسینے کی کمائی اس عمل میں لگی ہوتی ہے۔

ٹیسٹ لینے کا جو نظام ہے وہ بھی اس سارے عمل کی بوسیدگی سے ماورا نہیں۔ ٹیسٹ لینے کیلئے بہت سی یونیورسٹیوں کا ایک ہی امتحانی مرکز ہوتا ہے اور وہ بھی یونیورسٹی کے اندر ہی۔ مہنگائی کے اس دور میں کرائے پہلے ہی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ عام انسان کیلئے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرنا محال ہے۔ ایک عام طالب علم کیلئے کتنا مشکل ہوگا جس کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں سفر کر کے ٹیسٹ دینے کے عمل کے اخراجات ایک عام طالب علم کی استعداد سے باہر ہیں۔ ایک طالب علم کو اگر ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاکر ٹیسٹ دینا ہے تو اسے ایک دن پہلے اس شہر کا سفر کرنا پڑتا ہے کیونکہ ٹیسٹ کا وقت ہی ایسا ہوتا ہے کہ اسی دن ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کر کے پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ طالبات کیلئے ایک دن پہلے دوسرے شہر میں جا کر رہنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ اس عمل میں طالبات دوہرے جبر کا شکار ہوتی ہیں جن کیلئے یہ معاشرہ پہلے ہی جہنم بنا ہوا ہے۔ طالبات کیلئے گھر سے نکل کر یہ سب کچھ کرنا ایک اذیت ناک عمل ہوتا ہے جس میں سفر کے دوران ہراسمنٹ کے بڑے مسئلے ہوتے ہیں جس کی وجہ گھر میں سے کسی کو ساتھ آنا پڑتا ہے جو کہ اس کو ان کیلئے مزید مہنگا بنا دیتا ہے۔ داخلہ ہو جانے کی صورت میں بھی یہ مسائل ختم نہیں ہو جاتے ہیں بلکہ مزید بڑھ جاتے ہیں جس میں داخلوں کے بعد بھاری فیسیس بھرنا، ہاسٹلوں کے اخراجات، کرایوں کے خرچے اور پھر جیل نما تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ، نسلی، ثقافتی اور قومی تعصب اور پروفائلنگ کے مسائل شامل ہیں جن کا اس تحریر میں احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہ چھوٹا مگر تکلیف دہ مرحلہ جس سے ہر طالب علم کو گزرنا پڑتا ہے سرمایہ داری کی منافقت اور اس کی روشن مستقبل کی لفاظی میں چھپی غلاظت کو ہر متوسط اور غریب طالب علم کی زندگی پر آشکار کر رہا ہے۔ پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری یونیورسٹیاں اور ایچ ای سی بھی اس قسم کے طلبہ دشمن اقدامات کررہی ہے۔ ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتی کی وجہ سے نت نئے ٹیسٹ متعارف کرائے جارہے ہیں جس سے خوب پیسہ بنا یا جارہا ہے، جس میں لیٹ (ایل اے ٹی) اور یو ایس اے ٹی (ہائیر ایجوکیشن انڈر گریجویشن سٹڈیز ایڈمیشن ٹیسٹ) اور دیگر شامل ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں طلبہ کے ان مسائل کو فوری حل کیا جائے اور تعلیم کے کاروبار کو بند کیا جائے۔ ٹیسٹ فیسوں کے نام پر یہ لوٹ کھسوٹ بند کی جائے۔ پہلے تو یہ ٹیسٹ ہونا ہی نہیں چاہیے کیونکہ یہ سراسر ظلم ہے اور یہ تعلیمی نظام کی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ ایک طلب علم جو کسی ادارے سے سند لیتا ہے تو امتحان دے کر ہی لیتا ہے۔ اس کے باوجود دوبارہ داخلے کیلئے ٹیسٹ لینا ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ طلبہ کو ذلیل و رسوا کرنے کی بجائے تعلیمی اداروں میں داخلے کے عمل کو آسان اور طلبہ دوست بنایا جائے۔

شعبہ تعلیم کا کاروبار عیاشی اور جوئے کے کھیل کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یونیورسٹیاں اور کالج جنہیں علم کا مینار سمجھا جاتا ہے دُکانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں، جہاں پیسوں کے عوض ڈگریاں بیچی جاتی ہیں۔ انسان نے ہزاروں سال اس دنیا اور کائنات کی پراسراریت کی کھوج میں لگائے، کروڑوں انسان جنہوں نے اپنی زندگیاں لگا کر جستجو کی، محنت کی، نہ سمجھ آنے والی وحشتوں کا پتہ لگایا تاکہ زندگی کو سہل بنایا جا سکے۔ انہوں نے اپنے علم کو قلم بند کیا تاکہ اس کو مستقبل کی نسلوں تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے انسان کو فلسفیانہ افکار دیے، اگلی نسلوں کو زندگی گزارنے کیلئے بہترین ہتھیار اور اوزار دیے اور سوچ و فکر کو بلندی دی لیکن طبقاتی سماج کی وجہ سے یہی انسانیت کی وراثت انسانیت سے مکمل چھین لی گئی۔ سرمائے کے گِھن چکر نے تعلیم کو سرمایہ داروں کی لونڈی بنا دیا ہے۔ انسان کو انسان اور انسانیت سے بیگانہ کر دیا ہے اور اس کو اس کی معراج سے محروم کردیا ہے۔ آج کروڑوں انسان مشین کی سی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں جنہیں پیٹ کی جہنم کو بھرنے کیلئے زندگی دان کرنا پڑتی ہے۔ ان کو سوچ اور فکر کی تمام سیڑھیوں سے کاٹ دیا گیا ہے۔ لاکھوں انسان جو زندگی کے گِھن چکر سے نکل کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے رستے میں ہزاروں رکاوٹیں ہیں کیونکہ اب یہ کاروبار بن چکا ہے اور ایک بہترین منافع بخش دھندا ہے جس سے محض مٹھی بھر بھیڑیے نما انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

آج کی اس جدید دنیا میں اربوں انسان ہیں جو تعلیم جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیے گئے ہیں۔ بلاشبہ آج کی ساری ترقی تعلیم اور علم و شعور کی بدولت ممکن ہوئی جو کسی انفرادی شخص کی محنت نہیں بلکہ اجتماعیت کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں کسی انسان نے انفرادی مفاد کی خاطر اتنے بڑے کارنامے نہیں کیے بلکہ ان کا مقصد انسانوں کو بحیثیتِ مجموعی آگے بڑھانا تھا۔

ویسے تو اس نظام کے تعفن سے سماج کا کوئی شعبہ بھی نہیں بچ سکا، ہر شعبہ سرمایہ دارانہ نظام کے خونخوار پنجوں کی جکڑ میں ہے لیکن جس طرح اس نے مقدس مانے جانے والے شعبوں کو خون آشام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ صحت و تعلیم کے شعبے، جن کو انسان کیلئے بنیادی ضروری شعبے مانا جاتا تھا، انسانوں کی اکثریت کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اربوں لوگوں کیلئے امید کی کوئی کرن نہیں ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے بنیادی نوعیت کے مسائل سے لے کر انسانی سماج کی پیچیدگیوں کو حل کرنا اب اس سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے باہر ہوچکا ہے۔ اس لیے روٹی، کپڑے، مکان، صحت اورتعلیم کے حصول اور بنی نوع انسان کی بقاء کیلئے سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ایک غیر طبقاتی معاشرہ قائم کرنا ناگزیر ہوچکا ہے جو کہ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.