|پروگریسو یوتھ الائنس|
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور سینکڑوں لوگ (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) اس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ کی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ گو کہ حقیقت سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے لیکن اگر ان کو بھی مان لیا جائے تو پاکستان میں اس وائرس کا پھیلاؤ اٹلی کی نسبت زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کا حکمران طبقہ بھی پوری دنیا کے حکمران طبقے کی طرح کسی چیز کو بچانا چاہتا ہے تو وہ لوگوں کی جانیں نہیں ہیں بلکہ ان کے اپنے منافعے ہیں۔ جس کی بہت سادہ سی مثال فیس ماسکس کی زخیرہ اندوزی ہے۔ اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے پاک فوج نے بھی سینیٹائزر بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔
حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹروں کے لگاتار مطالبہ کرنے کے باوجود ابھی تک انہیں حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئیں اور انہیں موت کا سامنا کرنے کے لیے بے سر و سامان چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے لاک ڈاون کرنے کی بجائے ریاست کو ”معیشت“ کی فکر پڑی ہوئی ہے، یعنی کہ لاکھوں مرتے ہیں تو مریں بس ”سرمایہ داروں کی معیشت“ کو کچھ نہ ہو اور سارا ملبہ عوام پر ڈال دیا جائے۔
اگر پاکستان میں صورتحال مزید خراب ہوتی ہے (جس کے واضح امکانات ہیں) تو یہاں کے حکمران طبقے کے پاس نہ اتنی اخلاقی جرات ہے اور نہ معاشی سکت کہ وہ اس وباء کا مقابلہ کر سکیں۔ یقیناً معاشی سکت نہ ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ملک میں دولت کی کمی ہے بلکہ وہ دولت جن ہاتھوں میں مرتکز ہے، یہ دلال وہاں سے نکالنے کی جرات نہیں کریں گے اور اس وائرس کے خلاف لڑائی کے لیے درکار رقم بھی عوام کی جیبوں سے نکالی جائے گی۔ اس کی چھوٹی سی جھلکی تین روز قبل کے ایک فیصلے میں دیکھی جا سکتی ہے جس کے مطابق گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں سے 5 فیصد رقم کاٹی جائے گی۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کو بہت شارٹ نوٹس پہ بند کیا گیا ہے اور طلبہ کو ایک ان میں ہاسٹلوں سے اٹھا کے باہر کیا گیا جس کی وجہ سے طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن طلبہ کا تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے اس کا نقصان کون پورا کرے گا، ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہے۔ یقینا اس سارے عمل کے نتیجے میں بے روزگاری کا سونامی آئیگا۔
ایسے میں آج نوجوان رضاکارانہ طور پر اس بیماری کے خلاف لڑنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مگر جہاں ریاست شعبہ صحت کے ملازمین کو ہی تمام احتیاطی سہولیات مہیا نہیں کر رہی وہاں یہ نوجوان کیسے آگے قدم بڑھائیں! طلبہ یونین پر پابندی کے نتیجے میں آج طلبہ کے پاس وہ ہتھیار بھی نہیں ہے جس کی مدد سے حکومت پر پریشر ڈال کر بہتر اقدامات کرائے جا سکتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کریں اور اپنے اپنے علاقعے میں اس بیماری کے پھیلاو کی صورت حال اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر لگائیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے ان اندھے اور بہرے حکمرانوں کو زمینی صورت حال سے آگاہ کروایا جا سکتا ہے اور انہیں عملی اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس تمام نوجوانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کی اس کمپئین کا حصہ بنیں۔ ہمیں اپنی وڈیوز بنا کر بھیجیں، ہم ان وڈیوز کو اپنے پیج پر اپلوڈ کریں گے۔ یاد رہے وڈیو دو منٹ سے زیادہ دورانیے کی نہیں ہونی چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس وبا سے لڑنے کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جائیں:
1۔ فوری طور پر تمام اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا سلسلہ روکا جائے اور وہ تمام رقم اس وباء کے خلاف لڑنے میں خرچ کی جائے۔
2۔ تمام نجی ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے اور صحت کے لیے اخراجات کو فوری طور پر کم از کم جی ڈی پی کا 10 فیصد کیا جائے۔
3۔ عوام پر عائد کیے گئے بھاری بھرکم ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے اور بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان،سرمایہ داروں،ججوں،جرنیلوں اور سیاستدانوں کی تجوریوں سے رقم نکال کر عوام کے بچاؤ کے لیے خرچ کی جائے۔
4۔ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے طالب علموں کا جو نقصان ہوا ہے، اسے پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے اور ان سے کوئی فیس نہ لی جائے نیز اساتذہ کو بھی بمع تنخواہ چھٹیاں دی جائیں۔
5۔ تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کو قرنطینہ علاقوں کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے ڈی ایچ اے، عسکر ی وبحریہ ٹاؤن، گورنر ہاؤسز، وزیر اعظم ہاؤس اور دیگر عیاشی کے قلعوں کو استعمال میں لایا جائے۔
6۔ غیر ضروری پیداوار کی تمام صنعتوں کو فی الفور بند کیا جائے اور تمام ملازمین کو تنخواہوں کے ساتھ چھٹی دی جائے۔ اس کے علاوہ جن صنعتوں کو جاری رکھنا ضروری ہے وہاں ملازمین کو مکمل حفاظتی سامان مہیا کیا جائے اور اس مشکل وقت میں کام کرنے کا دگنا معاوضہ دیا جائے۔
7۔ نجی و سرکاری شعبے کے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو فورا مستقل کیا جائے اور غیر ضروری اشیاء پیدا کرنے والی صنعتوں کو فورا بند کیا جائے اور انکے ملازمین کو چھٹیوں پر بھیج کر انکی تنخواہ جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی سرمایہ دار مزدوروں کی تنخواہ روکتا ہے تو اس کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔
8۔ تمام بے روزگاروں کو ریاست فورا بے روزگاری الاونس جاری کرے اور بحران کے نتیجے میں آنے والے بے روزگاری کے سونامی کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاست اعلی تعلیم حاصل کرنے والے تمام طلبہ کو جاب سیکورٹی دے۔
9۔ کچھ ہی عرصے میں حکومت کی جانب سے سرمایہ داروں کیلئے ایک بیل آوٹ پیکج آنے والا ہے، اس پیکج کو فورا ختم کیا جائے اور اس کا تمام تر پیسہ مفت راشن، بے گھروں کیلئے رہنے کی جگہوں اور شعبہ صحت کے ملازمین کیلئے احتیاطی سہولیات پر خرچ کیا جائے۔
کورونا وائرس کی وبا نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نہ صرف یہ کہ آج نسل انسانی کی ترقی کے رستے میں مکمل رکاوٹ بن چکا ہے، بلکہ آج یہ نسل انسانی کی تمام تر ترقی کو نیست و نابود کر رہا ہے۔ کورونا جیسی بیماری سے لڑنے کیلئے منافع کی بنیاد پر چلنے والا یہ نظام آج مکمل نا اہل نظر آتا ہے۔ صرف اور صرف منصوبہ بند معیشت جس میں تمام پیداوار انسانی ضرورت کو مد نظر رکھ کر ہو، ہی آج سماج کے ارتقا کا اگلہ ناگزیر مرحلہ ہے۔ سرمایہ داری سے نجات ہی کورونا اور دیگر بیماریوں سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ انقلابی نوجوانوں کو آج اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف منظم جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا ۔