|تحریر: راول اسد|
کرونا وباء کا وار پوری دنیا میں ابھی بھی تیزی سے جاری ہے۔ امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھی لاکھوں افراد اس وباء کی زد میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ اس وباء کے نتیجے میں جنم لینے والے معاشی بحران نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے بڑے اور بد ترین بحران سے دوچار ہے۔ اس بحران نے پوری دنیا کے سامنے سرمایہ داری کا سفاک چہرہ عیاں کر دیا ہے۔ اس وباء نے واضح کر دیا ہے کہ کس طرح یہ نظام انسانی زندگی پر منافع کو ترجیح دے کر مٹھی بھر کھرب پتیوں کی دولت کا دفاع کرتا ہے۔
پاکستان میں کرونا کے اثرات
پاکستان جو کرونا وباء سے پہلے ہی بدترین معاشی بحران کا شکار تھا، جس کا گزارا عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی طاقتوں کے چند ٹکڑوں پر ہوتا ہے۔ اس وباء نے پاکستان کی معیشت کو مزید تباہی کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان کا حکمران طبقہ ان قرضوں اور اپنی عیاشیوں کا بوجھ یہاں کے محنت کش عوام کے کندھوں پر ڈال رہا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگائی، بے روزگاری اور نجکاری سمیت تمام عوام دشمن اقدامات میں تیزی آ گئی ہے۔ اس وباء میں بھی پاکستان کے حکمران طبقے نے واضح انداز میں ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ یہ ریاست یہاں کے سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ کرونا وباء کے خوفناک حملے کے دوران پاکستان میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات 90 فیصد عوام کی پہنچ سے باہر ہیں وہاں ملک کے سرمایہ داروں کے لیے 1000 ارب روپے کا ریلیف پیکج دیا گیا، جس میں بہت بڑے پیمانے کی سبسڈیاں اور ٹیکس ریلیف بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف عوام کے لئے صرف 200 ارب دیا گیا جس کے ساتھ مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور لا علاجی بھی شامل ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداواری عمل کی بندش کے باعث پاکستان میں لاکھوں افراد بے روزگار ہونے کی طرف گئے ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساٹھ لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جو کہ حقیقت سے بہت زیادہ کم اعداد و شمار ہیں۔ آئی ایل او کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دُنیا میں غیر رسمی شعبے سے وابستہ 1.6 ارب افراد اپنی 60 فیصد سے زائد آمدن کا حصہ اس وباء کے نتیجے میں کھو بیٹھیں گے، ترقی پذیر ممالک جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے وہاں یہ شرح 84 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں کرونا وباء نے یہاں کے محنت کش عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ماضی میں ہونے والی تھوڑی سی بچت، جس کی محنت کش طبقے کی اوپری پرتوں میں گنجائش موجود تھی، بالکل ختم ہو چکی ہے۔ پاکستان میں جہاں پہلے ہی محنت کش طبقہ بد ترین معاشی جبر کا شکار تھا اس بحران نے یہاں کی مڈل کلاس کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ مڈل کلاس کی وہ پرت جو تعلیم جیسی سہولیات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی ان کو بھی آج جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ طلبہ کی بہت بڑی تعداد جو لاک ڈاؤن سے پہلے اپنے کالج یا یونیورسٹی کی فیسیں برداشت کر سکتے تھے، اب لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد ان کی معاشی صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ معاشی بحران کے باعث مہنگائی اور بے روزگاری نے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ماضی میں خستہ حال جاری رہنے والا معاشی سرکل اب مکمل برباد ہو کر رہ گیا ہے جو کبھی بھی ماضی کی پرانی صورتِ حال میں واپس نہیں جا سکتا ہے۔
لاک ڈاؤن اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی ناکامی
پاکستان میں تعلیم کا کاروبار لاک ڈاؤن کے دوران بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہا۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر لاک ڈاؤن میں بھی طلبہ سے فیسیں بٹورنے میں لگے رہے اور طلبہ کو سہولیات مہیا کیے بغیر آن لائن کلاسوں کے نام پر ان سے فیسیں نکلوائی گئیں۔ پاکستان جہاں پچھلے 73 سالوں میں بنیادی انفراسٹرکچر بھی قائم نہیں کیا جا سکا وہاں پر آن لائن تعلیم کے نام پر یہاں کے طلبہ کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں طلبہ کی بڑی تعداد کے پاس آن لائن کلاسوں کے لیے لوازمات ہی میسر نہ ہوں وہاں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تعلیم مٹھی بھر لوگوں تک ہی محدود رہ جاتی ہے۔ لاک ڈاؤن میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے نام پر طلبہ سے فیسیں نکالی گئی ہیں۔ HEC کا ادارہ بھی لاک ڈاؤن میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بھی واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ آن لائن امتحانات اور اسائنمنٹس میں طلبہ کو فیل کیا گیا اور کمپارٹس لگائی گئیں۔ طلبہ کی بڑی تعداد نامکمل سہولیات کی وجہ سے آن لائن کلاسوں اور آن لائن امتحانات میں شامل ہونے سے محروم رہے ہیں جب کہ فیسوں میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں کی گئی اور وقت پر فیس ادا نہ کرنے والوں کو جرمانے کی سزا بھی دی گئی ہے۔ کرونا وباء نے پاکستان میں تعلیمی انفراسٹرکچر کا پول بھی سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی کھلنے والے تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت مرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ابھی بھی طلبہ کی اکثریت ان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آن لائن کلاسیں لے رہے ہیں۔
ماضی میں بکھری ہوئی طلبہ تحریک!
لاک ڈاؤن سے پہلے پاکستان میں طلبہ تحریک شاندار انداز میں لیکن بکھری ہوئی اور ایک دوسرے سے جدا کیمپس، کالجوں کی حد تک محدود نظر آتی ہے۔ گزشتہ سالوں میں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے میں ہمیں مختلف مسائل کے گرد گردش کرتی چھوٹی بڑی طلبہ تحریکیں نظر آتی ہیں جو کہ فیسوں میں اضافے، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور ہاسٹل کے مسائل سمیت دیگر مسائل پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ چلتی رہیں۔ جن میں سب سے قابلِ ذکر تحریک قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک تھی جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے طلبہ سے اپنے لیے یکجہتی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی طرف گئی۔ مگر پچھلے سال میں عمومی طور پر یونیورسٹیاں فیسوں میں اضافہ کرنے میں ایک حد تک کامیاب رہی ہیں اور طلبہ تحریک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ طلبہ تحریک کے غیر منظم اور ماضی میں بکھرے ہونے کی جہاں ایک وجہ تو یہ ہے کہ طلبہ مختلف نظریات کی حامل سماجی پرتوں سے آتے ہیں؛ وہیں پاکستان میں طلبہ یونین پر مسلسل پابندی کی وجہ سے بھی طلبہ کی کوئی سیاسی جماعت ان کے مسائل کی جدوجہد میں ان کو آپس میں جوڑ نہیں سکی۔ اس کا فائدہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے اٹھاتے ہوئے جدید تعلیمی نظام کے نام پر طلبہ کو مزید پروفیسروں کی گرفت میں ڈال دیا ہے جہاں سمیسٹر سسٹم میں طلبہ کو مکمل طور پر قید کر دیا گیا ہے۔
نئے مرحلے میں داخل ہوتی طلبہ تحریک!
پچھلے چھ ماہ پاکستان میں بسنے والے طلبہ نے بہت اذیت میں گزارے ہیں۔ کسی نے اپنی نوکری سے ہاتھ دھویا ہے تو کسی نے اپنے والدین کو بے روزگار ہوتے دیکھا ہے۔ کوئی گھر کے راشن کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوا ہے تو کسی نے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑی ہیں۔ اس عرصے میں دکھ، تکلیف اور بے بسی نے پاکستان کے محنت کش عوام پر ظلم کے انبار لگا دئیے ہیں۔ جلتی پر تیل کا کام آٹا، چینی، ادویات، پٹرول، سمیت دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے کر دیا۔ ماضی کی نسبت مستحکم زندگی برباد ہو کر رہ گئی۔ اس بحران نے بہت ہی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، پاکستان کے عوام پر اور بالخصوص طلبہ و نوجوانوں پر۔ لاک ڈاؤن کے بعد کیمپسز میں داخل ہونے والے طلبہ اب وہ نہیں ہیں جو پہلے تھے۔ زندگی کے اسکول نے بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں ان کے ذہنوں پر جن کا اظہار ہمیں آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ لاک ڈاؤن کے بعد کیمپسز میں داخل ہونے والے طلبہ کا سامنا فیسوں میں اضافے سے، تعلیمی اداروں کی نجکاری سے، ہاسٹلوں کی بندش سمیت دیگر مسائل سے ہو رہا ہے اور اس سب کے بعدبے روزگاری اور معاشی بحران ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے طلبہ بھی اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ انہیں بھی ادراک ہو چکا ہے کہ اب کی بار لڑائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ طلبہ تحریک سے خوفزدہ ہو کر پاکستان میں تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے بعد کھلنے والی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ بڑے احتجاجی مظاہروں کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور طلبہ میں شدید غم و غصہ موجود ہے۔ طلبہ خود ساختہ طور پر ان احتجاجوں کی کال دے رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ان میں حصہ لے رہے ہیں۔ نوجوانوں کے اندر پچھلے چند مہینوں میں جمع ہونے والا غصہ اب بھڑک رہا ہے جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہونے کی طرف جائے گا اور مزید تحریکوں کا سبب بنے گا۔ طلبہ تحریک میں بنیادی اور معیاری تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے جو آنے والے دنوں میں مزید نکھر کر اپنا اظہار کرے گا۔ معاشی بحران مزید گہرا ہو گا اور طلبہ پر مزید معاشی حملے کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں طلبہ تحریک کا فطری اتحاد قائم ہو گا جو کہ ملکی سطح پر اور اس سے بڑھ کر پورے خطے میں طلبہ یکجہتی کو جنم دے گا۔ اس عمل میں جہاں طلبہ میں انقلابی نظریات کی پیاس بڑھنے کی طرف جائے گی اور انقلابی قوتوں کو مواقع فراہم ہوں گے وہیں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے نام پر لبرلز اور این جی او مافیا بھی طلبہ تحریک کو بیچنے، کرپٹ کرنے اور برباد کرنے کے لئے موجود ہوں گے۔ پاکستان کے طلبہ سیاسی تاریخ میں پھر سے قدم رکھنے کی طرف جا رہے ہیں۔