|تحریر: علی عیسیٰ|
اس اندھے طبقاتی نظام میں لنگڑے اور گونگے اداروں کا ہونا کوئی عجوبہ یا حیران کن بات نہیں۔ لہٰذا تمام دوسرے اداروں کی طرح تعلیمی ادارے بھی لنگڑاتے ہوئے خود کو سنھبالنے کی کوشش میں ہیں۔ سندھ یونیورسٹی بھی انہی تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جو فرسودگی اور خسارہ پن کے اس نہج پر ہے کہ اب اس کے لیے خود کو کھڑا رکھنا دشوار بنتا جارہا ہے۔ آئے دن کوئی مسئلہ جدید ڈھولک پیٹتا نظر آتا ہے اور رہی سہی کسر تعلیمی بجٹ کی کٹوتیوں نے پوری کردی۔
انتظامیہ، سیکورٹی کے نام پر طلبہ کی تذلیل کرتے دیکھائی دیتی ہے، یہاں تک کہ گزشتہ سال سیکورٹی کی طرف سے دو طالب علموں پر بے دردی سے تشدد کیا گیا۔ جس کے رد عمل میں جب مزاحمتی طور پر احتجاج کیا گیا تو وی سی فتح محمد برفت (عرف وی سی یوٹرن) نے اور کچھ نام نہاد طلبہ تنظیموں نے آپسی میل جول کے ذریعے اس مزاحمت کو روکا۔ اس کے علاوہ جب ہاسٹل سے سندھی شعبے کے آخری سال کی طالبہ نائلہ رند کی لاش ملتی ہے تو اس پر سیکورٹی اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے، یعنی سیکورٹی تحفظ کے لیے نہیں پر طلبہ جدوجہد یا مزاحمت کو دبانے کے لیے ہے۔ اس واقعہ کو ہراسمنٹ کا کیس بنا کر ایک طالب علم کو بھی گرفتار کیا جاتا ہے پر اسی سال جب انگریزی شعبے کے ایک استاد، ایک طالبہ کو جنسی تعلقات رکھنے پر بلیک میل کرتا ہے تو وی سی انتظامیہ اور طلبہ دشمن عناصر، وی آر سیف(we are safe) نامی مارچ کر کے اس مسئلے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسائل صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ خستہ حال ٹرانسپورٹ اور بیکار ڈرائیونگ کے سبب ایک بس، شعبہ فزکس کی طالبہ شائستہ میمن کو کچل ڈالتی ہے۔ جس پر طلبہ کی بڑی تعداد نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح وہاں بھی انتظامیہ کی تنخواہ دار طلبہ تنظیم اور وی سی یوٹرن صاحب 100 نئی بسوں کا وعدہ کر کے طلبہ مزاحمت کو خاموش کراتے ہیں (وہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان بسوں کا انتظام ہونے کی بجائے پرانی بسوں کو بھی کم کیا جا چکا ہے)۔
اس کے بعد صاف پانی اور ہاسٹل کی کمی پر طلبہ کی جانب سے آرٹ فیکلٹی کے گیٹ پر مظاہرہ کیا گیا جس پر بھی وہی ڈرامہ رچایا گیا۔
ہاسٹل کی کمی کے باعث بہت سے طلبہ نے اپنے داخلے منسوخ کرائے ہیں۔ حتیٰ کہ بوائز ہاسٹل کی ایک بڑی عمارت پر پولیس کا قبضہ ہے۔ دوسری طرف بہت سی دیگر عمارتیں بھی خالی ہیں۔
اس کے علاوہ بڑھتی آبادی کی نسبت سے ایک اور تعلیمی ادارہ بنانے کی بجائے سندھ یونیورسٹی میں سیٹیں کم کردی گئی ہیں اور سیلف فنانس جیسے ڈرامے پر رکنے کی بجائے اسپیشل فنانس کی فلم رچائی گئی ہے۔ جہاں مزدور اور کسان عوام سستی تعلیم کی وجہ سے اپنے بچوں کو پڑھانے کا سہانا خواب دیکھتی تھی ان سے یہ خواب دیکھنے کا حق بھی چھینا گیا ہے۔
یہ تھی گزشتہ سال کی کہانی، پر ابھی تک یہ مسائل حل نہیں ہوئے اور ایک نئے رنگ سے واپس ابھر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں ہاسٹل گیٹ پر صاف پانی کے لیے احتجاج کیا گیا پر اس جدوجہد کو بھی انتظامیہ اور طلبہ دشمن عناصر نے ایک مہینے کا وقت لے کر طلبہ کو خاموش کرایا دیا۔
بالکل اس احتجاج کی دوسری رات گرلز ہاسٹل میں ایک طالبہ کی طبیعت خراب ہوئی جس پر انتظامیہ کی جانب سے ان کا علاج کروانا تو دور، باہر جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ تھی سندھ یونیورسٹی طلبہ کو درپیش مسائل اور انکی مزاحمت کی کہانی۔
اب طلبہ کو کرنا کیا چاہیے؟
اس کا ایک واضح جواب ہے کہ مزاحمت صرف اور صرف مزاحمت!
مفاہمت کے ذریعے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بگڑتے نظر آرہے ہیں۔ انتظامیہ تو مسائل کو حل کرنے کی نیت ہی نہیں رکھتی۔ اب سوال پیدا ہوگا کہ مزاحمت کا طریقے کار کیا ہو؟ سب سے پہلے طلبہ کو فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینا ہوں گے۔اس کے ساتھ ساتھ طلبہ دشمن تنظیموں کو اپنی صفحوں سے نکال باہر کرنا ہوگا اور آپسی جڑت بنانی ہوگی۔ انتظامیہ کے کسی بہانے میں الجھنے سے پرہیز کرنی ہوگی۔ خود کو دوسرے تعلیمی اداروں کے طالب علموں سے جوڑ کر مزاحمت کو زیادہ جلال بخشنا ہوگا۔
مختصراََ، آج طلبہ (خواہ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں ہوں) کو درپیش تمام مسائل کا حل ملک گیر منظم جدوجہد میں ہے، جس کے لیے طلبہ یونین انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ طلبہ کا جمہوری و بنیادی حق ہے اور اس حق کو حاصل کرنے کے ایک پرزور مزاحمت کی ضرورت ہے۔
طلبہ یونین بحال کرو!
مفاہمت نہیں مزاحمت!
طلبہ جدوجہد زندہ باد!