|تحریر: زاہدہ ملک|
بچپن کی زندگی، جو کہ عام طور پر طالبِ علمی کا زمانہ ہوتا ہے لیکن بہت سے بچوں کے لیے، معاشی مفلسی اور غربت کے باعث چائلڈ لیبر کے ہاتھوں، صرف ایک خواب ہی رہ جاتا ہے اور یہ ننھی منی کلیاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ورکشاپوں، ہوٹلوں، امیروں کے باورچی خانوں، کباڑ خانوں، ریستورانوں اور دیگر کام کی جگہوں پر استحصال کے ذریعے مرجھا جاتی ہیں۔
بچپن کی زندگی جس کو ناولوں، افسانوں، ڈراموں اور کہانیوں میں بہت مثالی زندگی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، ہمیشہ اور ہر ایک کیلئے مثالی نہیں ہوتی بلکہ اس سماج کی اکثریت، محنت کش طبقے کے بچوں کے لیے تاریکی، دکھ اور محرومی کا ہی منظر پیش کرتی ہے۔
موجودہ سماج میں سکول اور خاص طور پر نجی سکول جہاں ایک طرف اساتذہ کا شدید استحصال کر کے مالکان کی منافع خوری کا سبب بنتے ہیں، وہیں دوسری طرف بھاری بھرکم فیسیں بٹور کر غریب والدین کو بھی لوٹتے ہیں۔ آج تعلیمی ادارے بالکل دکانوں اور فیکٹریوں کی منظر کشی کرتے ہیں جہاں سکول مالک ایک سرمایہ دار، استاد ایک محنت کش، اور طالبِ علم کو ایک گاہک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس نظام کے اندر سکول اور تعلیم منافع خوری کا ذریعہ بن چکے ہوں وہاں استاد اور شاگرد کے مقدس رشتے کی باتیں کھوکھلی اور بے بنیاد ہوا کرتی ہیں۔ تعلیم کے نام پر ہونے والے اس منافع بخش دھندے میں بچوں، والدین اور ملازمین کے معاشی استحصال کے علاوہ بچوں اور بچیوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ سکولوں میں اگرچہ بچے مدارس کی طرح کھانے اور رہائش کیلئے اساتذہ کے محتاج نہیں ہوتے لیکن پھر بھی بعض اساتذہ اپنے مقام کا ناجائز فائدہ اٹھا کر بچوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔
نجی سکولوں اور ٹیوشن سینٹروں میں آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات دینی مدارس کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ پشاور کے ایک اچھے خاصے ”مہذب” ٹاؤن حیات آباد میں پچھلے سال ایک تعلیمی ادارے کے مالک کا شرمناک سکینڈل سامنے آیا تھا جو سینکڑوں بچیوں کے ساتھ جنسی بدفعلی کے بعد ان کی بے ہودہ ویڈیوز بنا کر انہیں مختلف پورن ویب سائٹس کو بیچ کر اپنی ہوس پوری کرنے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی کما رہا تھا۔ اسی طرح چند دن پہلے خیرپور میرس کی تحصیل ٹری میرواہ میں 17 گریڈ کے ریٹائرڈ استاد کا بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے۔ شہر کے نیباؤ محلے کے رہائشی سارنگ شر نے ٹیوشن پڑھانے کے بہانے 10 سالہ معصوم بچے کو بلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ شخص مبینہ طور پر کئی بچوں کے ساتھ زیادتی کر چکا تھا۔ میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹس کے مطابق یہ شخص 132 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا چکا تھا جس میں کم عمر لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔ یہ استاد نہ صرف بچوں سے زیادتی کرتا تھا بلکہ بچوں کو گروہ کی شکل میں بدفعلی کی تعلیم بھی دیتا تھا اور پھر ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ اس درندے کو ابھی جیل بھیج دیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسانیت کے نام پر اس دھبے کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے لیکن جنسی ہراسانی کے واقعات کسی ایک یا دو اداروں تک محدود نہیں ہیں۔
زیرِ غور بات یہ ہے کہ ملک بھر میں تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی زیادتیوں اور ہراسگی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن عوام اور خاص طور پر بچوں کی اس سے آگاہی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جنسی ہراسگی کا شکار یہ ہی سمجھتا ہے کہ اس کی قسمت میں یہ ہی لکھا تھا۔
اس کو یہ ہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ اس نے کسی کو بتایا تو اسی کی کم بختی آئے گی۔ اس طرح سے سخت سزاؤں سے لیس قوانین بن جانے کے باوجود ہر روز کوئی نیا سکینڈل، کوئی نیا شکار سامنے آیا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہراسمنٹ کا یہ مسئلہ اس سماج کی بُنتر کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ایسے واقعات پاکستان کی ہر گلی محلے میں اور ہر چھوٹے بڑے نجی سکول اور ٹیوشن سینٹر اور ہر ادارے میں ایک معمول بن چکے ہیں۔
سکول تو سکول یونیورسٹیاں بھی جنسی ہراسگی سے محفوظ نہیں ہیں، جہاں استاد اور طلبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور تعلیم جس کو ہمارے دانشور ”ہر بُرائی کا حل“ بتاتے ہیں، نہ پروفیسروں کو قوانین اور اخلاقیات کا سبق یاد کروا سکی اور نہ ہی غریب طلبہ کو اپنا حق پہچاننے، اس کی حفاظت کرنے یا اس کو لینے کا طریقہ سکھا سکی۔ بلوچستان یونیورسٹی میں پچھلے سال سامنے آنے والا شرمناک سکینڈل جس میں انتظامیہ کے بڑے عہدیداروں کی اکثریت شامل تھی، اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ان مسائل کو حل کیا جائے؟ کیا اخلاقیات کی تبلیغ کرنے یا لوگوں کو اچھائی کی تلقین کرنے یا ان عادات کو انفرادی طور پر بدلنے کی تلقین و تبلیغ کرنے سے ان مسائل کا سدباب کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ مسائل صرف کچھ افراد کے اندر فطری برائی کی وجہ سے جنم لیتے ہیں؟
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم آج جس سرمایہ دارانہ سماج میں رہ رہے ہیں یہ اتنا گِر چکا ہے کہ اس نظام میں تعلیم کو بھی خریدے اور بیچے جانے والی اشیاء کی طرح منافع کمانے کا ایک ذریعہ بنایا جا چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے نتیجے میں یہ گراوٹ اور بھی شدت پکڑتی جا رہی ہے کیونکہ بحران کے عہد میں حکمران طبقہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر مزید حملے کرتے ہوئے تعلیم کی نجکاری کرتا ہے اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کے بچے اور نوجوان مفت تعلیم کے حق سے مزید محروم رہ جاتے ہیں اور آخری تجزیے میں یہ سارا عمل تعلیم کو کاروبار کی حد تک محدود کر دیتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی ایک بڑی وجہ طلبہ یونین کا نہ ہونا بھی ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر طلبہ یونین قائم ہو تو تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی ہراسگی کے خلاف مؤثر طریقے سے لڑا جا سکتا ہے اور اس غلاظت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے اندر جنسی ہراسگی بھی دیگر تعلیمی مسائل سے جڑا ایک گھمبیر مسئلہ بن چکی ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کا واحد حل اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب تعلیم کو منافع خوروں کے ہاتھ سے نکال کر اس کی کاروباری حیثیت کو ختم کر دیا جائے۔ یعنی کہ ملک بھر میں تعلیمی نظام کو اور تمام تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کیا جائے اور ساتھ ہی بچوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق نئے اور جدید تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں۔ علاوہ ازیں منافع خوروں کے قبضے میں جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں ان سب کو قومی تحویل میں لے لیا جائے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی فی الفور بحالی کو یقینی بنایا جائے۔ تعلیمی نظام کو مکمل طور پر قومی تحویل میں لینے سے ایک طرف تو تمام بچوں کو مفت تعلیم میسر ہو جائے گی، نصاب کا فرق اور تعلیم کا طبقاتی فرق ختم کیا جاسکے گا اور سب سے اہم بات یہ کہ تعلیمی ادارے جب پیسہ کمانے اور کاروباربنانے کی ہوس سے پاک ہو جائیں گے تب ہی حقیقی علم منتقل کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے!
طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے!
تعلیم کا کاروبار بند کیا جائے!
طلبہ یونین بحال کی جائے!
سرکاری سکولوں میں ڈنڈے اور خوف و ہراس ختم کیا جائے!
سرکاری افسروں کو ایئر کنڈیشنر دفتروں سے نکال کر ماضی کی طرح سکولوں کے اچانک دورے کرنے، بچوں کو ان کے حقوق بتانے اور ان سے سوالات کرنے پر مجبور کیا جائے!
ان کے علاقے میں کسی ایسے واقعے کی صورت میں ان کو نوکری سے نکالا جائے!
تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے مجرموں کو ”امانت میں خیانت“ کرنے کی وجہ سے قانون میں موجود عام سزاؤں سے دُگنی سزائیں دی جائیں!