|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ڈی جی خان|
31 اگست بروز جمعہ کو پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام ایک سیمینار بعنوان (پاکستان کا معاشی اور سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟) کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں 20 کے قریب طلبہ اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ شاہ صدر دین جیسے علاقے میں اس سیمینار کا منعقد ہونا یقینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ شاہ صدر دین ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کی سیاست آج بھی واضح طور پر وڈیروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں نہ تو کوئی ہسپتال ہے اور نہ ہی ڈھنگ کا کوئی تعلیمی ادارہ۔ سکولوں کی حالت ایسی ہے جیسے زمانہ قدیم میں غلاموں کے قید خانے ہوں۔ بچوں کیلئے کلاس رومز میں بیٹھنے کی کرسیاں تک موجود نہیں ہیں۔ ایسے علاقے میں عالمی اور ملکی سیاست پر بحث ہونا اور اس میں نوجوانوں کی زبردست دلچسپی کا مظاہرہ کرنا غیر معمولی بات ہے اور نوجوانوں کے بلند شعور کا اظہار ہے۔
سیمینار کو چئیر آصف نے کیا اور راول اسد نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی۔ آصف نے آغاز میں پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ آج پاکستان میں طلبہ نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل پر بات کرنے والی کوئی تنظیم یا پارٹی نظر نہیں آتی اور ماضی کی تمام نظیمیں اور روایتی جماعتیں زوال پذیر ہو چکی ہیں۔ ایسے میں طلبہ مزدوروں اور محنت کشوں کو منظم کرنے اور ان کے مسائل کے حل کی جدوجہد کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس کا پلیٹ فارم بنایا گیا۔ اس کے بعد راول اسد نے بات کا آغاز شاہ صدر دین کی تباہ حال صورت حال سے کیا اور وڈیوروں کی جانب سے اسے پسماندہ رکھنے کی سوچی سمجھی سازش پر روشنی ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ وڈیروں نے اس علاقے کو اس لیے پسماندہ رکھا ہوا ہے تاکہ وہ یہاں کی عام عوام کو اپنا غلام رکھ سکیں۔ شاہ صدر دین کی صورت حال پر بات کرنے کے بعد راول نے کہا امیر طبقے اور غریبوں کی سیاست بہت مختلف ہوتی ہے۔ امیر طبقے کی سیاست سے آج ہر کوئی نفرت کرتا ہے اور یہ سیاست کرپشن, مال بنانے اور ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور امیر طبقہ ہمیشہ اپنے طبقے کے مفادات کے لیے سیاست کرتا ہے۔ جب کہ اس سیاست سے ہٹ کر بھی سیاست ہوتی ہے جو لوگوں کے حقوق کے لیے ہوتی ہے جو مزدور کسان اور طلبہ اپنے حقوق کے لیے کرتے ہیں۔ غربت, بے روزگاری, دہشت گردی, لوڈ شیڈنگ اور بھوک ننگ جیسے مسائل کا سامنا محنت کش طبقات کو ہے اور ان مسائل کے خاتمے کی جدوجہد غریب محنت کشوں کو ہی کرنی پڑے گی۔ حکمران طبقے کی کوئی بھی پارٹی ان مسائل کو حل نہیں کرے گی اور نہ ہی ان میں سکت اور صلاحیت ہے کہ وہ ایسا کر سکیں۔ ہم آج جس نظام میں رہ رہے ہیں وہ دنیا بھر میں زوال پذیر ہے اور آج کہیں بھی ترقی دینے کا اہل نہیں رہا۔ پاکستانی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہے اور حکمران طبقہ معاشی بحران کا سارا بوجھ غریب عوام پر لادنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے کے پاس آئی ایم ایف کے قدموں میں گرنے اور اس کے عوام دشمن پروگرام پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا اور بہت جلد پی ٹی آئی کی حکومت سادگی کے ڈراموں کی آڑ میں پاکستانی عوام سے قربانی مانگنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کو غربت و بے روزگاری میں دھکیلنے کی طرف بڑھے گی۔ آج نوجوانوں کے پاس ایک طرف ناامیدی کا راستہ ہے اور دوسری طرف جدوجہد کا راستہ ہے۔ نوجوانوں کی بھاری تعداد بے روزگاری کی اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ نوجوان جو پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے تھے اور پی ٹی آئی کی حکومت سے روزگار اور دوسرے مسائل کے حل کی توقعات رکھتے ہیں بہت جلد عمران خان سے نا امید ہوں گے۔ ان سارے حالات میں نوجوان اپنے تجربے سے سیکھتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لیے خود متحرک ہوں گے اور جدوجہد کے میدان میں اتریں گے۔
راول اسد کے بعد فضیل اصغر نے بحث میں حصہ لیا اور کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں آنے والا عہد تحریکوں کا عہد ہے۔ پاکستان میں بھی طلبہ, محنت کشوں,کسانوں اور مظلوم قومیتوں کی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور دن بدن عوام کی برداشت کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے اور وہ اس ظالمانہ نظام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایسے میں ہم لوگوں کو ان کے مسائل کے حل گرد منظم کر رہے ہیں تاکہ عوام کی مشترکہ جدوجہد سے اس ظالمانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جا سکے۔
اس کے بعد حنیف ساجن نے انقلابی شاعری سنائی اور آخر میں راول اسد نے سوالات کی روشنی میں بحث کا خاتمہ کیا۔