|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، خیبر پختونخواہ|
جنسی ہراسگی کا مسئلہ پوری دنیا میں اورخاص طور پر پاکستان میں تیزی سے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، جس میں تعلیمی ادارے سر فہرست ہیں۔ حال ہی میں بنوں یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی کے واقعات نے طلباء و طالبات میں اسکے خلاف شدید غصے کو جنم دیا ہے۔ ردعمل میں طلبہ کے احتجاج سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ ریاست اس سنجیدہ مسئلہ پر قابو کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخواہ چکدرہ میں 18 اکتوبر کو پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ”تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کے خلاف کیسے لڑا جائے“ کے عنوان سے ایک روزہ سمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس سیمینار میں مالاکنڈ یونیورسٹی، گل آباد ڈگری کالج، پشاور یونیورسٹی، گندھارا سکول اینڈ کالج، فارسٹ کالج پشاور اور دوسرے کالجوں کے طلبہ، مزدور رہنماوں اور ڈاکٹروں نے شرکت کی۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض شہاب چکدروال نے سر انجام دیے۔ سیمینار کے پہلے مقرر پشاور یونیورسٹی سے تیمور خان تھے۔ تیمور کے بعد ڈاکٹر حسن خان، تاج محمد، عطاء اللہ، تاثیر، اسد، فارسٹ کالج کے طالبعلم سکندر خان، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے حسنین، فرہاد اور صدیق جان نے بات کی۔ مقررین نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی ایک ناسور کی طرح پھیل گئی ہے لیکن اس موضوع پر کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ اس لئے یہ سمینار بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں اس موضوع پر بحث کی جا رہی ہے۔
مقررین نے بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ جنسی ہراسگی کے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ اس سکینڈل میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ مقررین نے کہا کہ ایک طرف تعلیمی اداروں کو سیکورٹی کے نام پر جیل خانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، دیواروں کو اونچا کیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کے ارد گرد خار دار تاریں لگا دی گئی ہیں، جبکہ دوسری طرف انہیں لوگوں کی وجہ سے طلباء و طالبات محفوظ نہیں ہیں۔ ان خار دار تاروں اور تعلیمی اداروں میں سیکورٹی اہل کاروں کی تعیناتی کا مقصد صرف طلبہ کو ڈرانا اور اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے سے دور رکھنا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں کمی کر دی گئی ہے جسکا سارا بوجھ طلبہ پر ڈالا گیا ہے اور سمسٹر فیسوں میں بے انتہا اضافہ کیا گیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے جبکہ دوسری طرف ہاسٹل کی عدم دستیابی اور ہاسٹل کے مسائل، میس، باتھ رومز، ٹرانسپورٹ اور دوسرے مسائل سے طلبہ دو چار ہیں۔
مقررین نے کہا کہ حکمرانوں نے طلبہ یونین پر پابندی لگا دی ہے جسکا مقصد طلبہ کو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے سے دور رکھنا ہے۔ ماضی میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین ہوا کرتی تھی جس کے ہر سال انتخابات ہوتے تھے اور طلبہ یونین کے منتخب نمائندے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ تمام تر فیصلوں میں طلبہ کے حقوق کی نمائندگی کرتے تھے، جس کی بدولت طلبہ کو کوئی بھی ہراساں نہیں کر سکتا تھا۔ مقررین نے کہا کہ طلبہ نے آج اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے اور پورے ملک میں مختلف تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ کی اپنے حقوق کیلئے جدوجہد جاری ہے۔ جنسی ہراسگی کا واحد حل طلبہ یونین کی بحالی ہے۔ اس وقت مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ کی جاری تحریکوں کو ایک دوسرے کہ ساتھ جوڑنے اور ایک مشترکہ جدوجہد کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔