|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس ملتان|
10 اگست بروز جمعہ پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ملتان میں دوسرے مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں مختلف تعلیمی اداروں جن میں بی زیڈ یو، ایمرسن کالج اور دیگر شامل ہیں سے طلبہ نے اور مختلف اداروں کے محنت کشوں نے شرکت کی۔
سکول دو سیشنوں پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن پاکستان اور عالمی تناظر پر ہوا جس میں کامریڈ فضیل اضغر نے لیڈ آف دی اور اس سیشن کو چیئر کامریڈ راول اسد نے کیا۔ لیڈ آف دیتے ہوئے فضیل نے سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے پوری دنیا پر پڑنے والے اثرات جن میں ہر شعبے میں وقوع پزیر ہونے والی شدید ترین تبدیلیاں شامل ہیں، پر روشنی ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ عہد میں پرانا ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے اور اسکا اظہار ہر شعبے میں ہمیں نظر آتا ہے خواہ وہ سیاست ہو، سفارت کاری ہو یا سماجی صورت حال ہو۔ ہر شعبے میں کبھی نہ دیکھی گئی تبدیلیاں جو بعض جگہوں پر تو انتہائی مضحکہ خیز صورت حال اختیار کیے ہوئے ہیں (جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا اور اسکے بعد پوری دنیا میں رنگ برنگے انداز سے رنگ برنگے کارنامے سرانجام دینا) دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہر خطے میں سٹیٹس کو کے خلاف بغاوتیں جنم لے رہی ہیں اور عوام اپنے حالات کو بہتر بنانے کیلئے پرانی (روایتی) پارٹیوں کو رد کر رہی ہے اور ہر جگہ نئے تجربات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر جگہ احتجاج ہڑتالیں اور عام ہڑتالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں محنت کش طبقہ آج ایک نئی طبقاتی جنگ کے آغاز کا اعلان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ خواہ چین ہو (جہاں اسی سال مختلف شعبوں کے مزدوروں نے ملک بھر میں ہڑتالیں کیں)، ارجنٹینا ہو، برازیل ہو، فرانس ہو، برطانیہ ہو یا امریکہ ہو ہر جگہ محنت کش طبقہ حرکت میں نظر آتا ہے۔ اس بحرانی کیفیت کے اندر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی شروع کی ہوئی تجارتی جنگ پر بھی تفصیلی بات کی اور اسکے معیشت، سیاست، سفارت اور خاص طور پر مختلف سماجوں پر پڑنے والے اثرات پر روشنی ڈالی اور تجارتی جنگ کے پیچھے کارفرما عوامل پر بھی روشنی ڈالی۔ اسی طرح ٹرمپ جیسی شخصیت کے ابھار کی وجوہات پر بھی بات کی۔ اسکے بعد اس عالمی منظر نامے میں پاکستان کی سیاست، معیشت، سفارت اور سماج کا تجزیہ کیا اور پاکستان میں مزدور تحریک کے بڑے پیمانے پر نظر آنے کے آغاز اور اسکی کامیابی کے تناظر پر بات کی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ کامریڈ یونس نے سوال کیا کہ ایران پر امریکی پابندی سے انڈیا کی چاہ بہار میں سرمایہ کاری پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسکے بعد آصف لاشاری نے بحث میں ملاتے ہوئے پاکستان میں طلبہ تحریک کے حوالے سے بات کی اور طلبہ یونین کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آصف کے بلوچستان کے حوالے سے کامریڈ عبدالرحمان نے بات رکھی۔ جس میں انہوں نے بلوچستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے حوالے سے بات کی اور روایتی قوم پرست پارٹیوں کے زوال پر روشنی ڈالی۔ فاٹا کے حوالے سے کامریڈ یونس نے بات کی۔ جس میں انہوں نے فاٹا انظمام اور پشتون تخفظ تحریک کے اُبھار پر مختصر گفتگو کی۔
آخر میں کامریڈ راشد خالد نے دنیا میں وقوع پزیر ہونے والی شدید ترین تبدیلیوں کی ٹھوس مثالیں دیں جس میں انہوں نے مختلف خطوں پر بات کی۔ آخر میں فضیل اضغر نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے موجودہ عہد کو تحریکوں اور تیز ترین تبدیلیوں کا عہد قرار دیا اور اس عہد میں انقلابی پارٹی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بحث کا اختتام کیا۔
پہلے سیشن کے اختتام کے فورا بعد دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ دوسرے سیشن کو چیئر کامریڈ یونس وزیر نے کیا اور لیڈ آف آصف لاشاری نے دی۔ اس سیشن کا عنوان مابعد جدیدیت پر مارکسی تنقید تھا۔ کامریڈ آصف نے اپنی لیڈ آف میں کہا کہ پوسٹ ماڈرن ازم (ما بعد جدیدیت) زوال پذیر سرمایہ داری کے دانشوروں اور حکمران طبقات کا مارکسزم کے خلاف ایک ہتھیار ہے جسے وہ سوشلزم اور سوشلسٹ انقلاب کو بد نام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن ازم اور ماڈرن ازم سرمایہ داری کے دو مختلف مراحل کے درمیان پروان چڑھنے والے نظریاتی رجحانات کی عکاسی ہیں اور پوسٹ ماڈرن ازم سرمایہ داری کے دوسرے مرحلے کے دوران پروان چڑھنے والا نظریاتی رجحان ہے جب سرمایہ داری سماج کو مزید ترقی دینے کی اہل نہیں رہی تھی اور اپنے نامیاتی تضادات کا شکار ہونا شروع ہوئی تھی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اور اس کے بعد کے دور میں حکمران طبقات، بورژوا دانشوروں اور اس عہد کے دیگر فلسفیوں کے اندر بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار ہمیں پوسٹ ماڈرنسٹ نظریات میں ملتا ہے۔ آصف کا مزید کہنا تھا کہ پوسٹ ماڈرن ازم ایسا نظریہ ہے جو چیزوں کو قبول کرنے سے زیادہ رد کرتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم فطرت، انسانی سماج، سائنس اور فلسفے میں ترقی کے نظریے کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ چیزوں کی تعمیم کرنے کو رد کرتا ہے اور چیزوں کے مختلف ہونے پر زور دیتا ہے۔ پوسٹ ماڈرن اسٹ کسی تحریر کے اپنے معنی ہونے سے انکار کرتے ہیں کہ ہر پڑھنے والا اپنی موضوعیت سے اسے معنی دیتا ہے اس لیے ہم کسی تحریر کی درست تفہیم کے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے۔
پوسٹ ماڈرن ازم کا نظریہ معروضیت کو رد کرتا ہے اور سائنسی حقائق کو بھی جھٹلاتا ہے. پوسٹ ماڈرن اسٹ دلیل دیتے ہیں کہ کائنات میں کوئی مطلق سچائی وجود نہیں رکھتی اور ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے اس لیے کسی چیز کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ اس نظریے کو پیش کرنے والے اپنے نظریے کے نئے ہونے کے دعوے دار ہیں اور نئے نئے خیالات پیش کرنے کی موشگافیاں کرتے ہیں لیکن در حقیقت پوسٹ ماڈرن ازم کا نظریہ کوئی نیا نہیں بلکہ ہمیں ہزاروں سال پرانی فلسفیانہ عینیت پرستی کی کھائی میں دھکیلتا ہے اور معروضی عینیت پرست کانٹ کے نظریات کی نئی اصطلاحات میں لپٹی شکل ہے۔ یہ نظریہ چیزوں کو سمجھے جانے سے انکار کرتا ہے اس لیے سرمایہ دار طبقے کو وارے کھاتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو تب ہی تبدیل کیا جا سکتا جب اسے پہلے سمجھا جا سکے۔ جدلیاتی مادیت کا نظریہ پوسٹ ماڈرن ازم کے برعکس چیزوں کے وجود کو اور جاننے کو بھی تسلیم کرتا ہے اور تبدیل کرنے کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ کئی دہائیوں کے مارکسزم کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کے باوجود آج پوری دنیا میں کروڑوں انسان دوبارہ مارکسزم اور اس کے فلسفے جدلیاتی مادیت کی جانب رجوع کر رہے ہیں تاکہ وہ دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور سوالات کے بعد کامریڈ ماہ بلوص نے بحث میں حصہ لیا۔ کامریڈ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے پروفیسز بڑے مغرورانہ انداز میں بطور پوسٹ ماڈرن اسٹ اپنا تعارف کراتے ہیں اور اس کے نئے نظریے کے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ اگر ان سے مارکسزم کے متعلق کچھ پوچھا جائے تو کہتے ہیں یہ نظریہ آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ پوسٹ ماڈرنسٹ درست نظریات سے زیادہ نئے نظریات کی مالا جپتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیں نئے خیالات کی طرف بڑھنا چاہیے وغیرہ۔ حالانکہ ان کا یہ نیا نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے مگر یہ اسے نیا منوانے پر بضد نظر آتے ہیں۔
آخر میں دوسرے سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے راشد خالد نے فلسفے کی تاریخ کے حوالے سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک فلسفے کی بحثوں میں جو بنیادی سوال رہا ہے وہ یہ ہے کیا جانا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر جانا جا سکتا ہے تو کس طرح اور کیا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اس بنیادی سوال پر فلسفے کی تمام تر بحثیں ہوئیں اور فلسفے نے ارتقا کیا۔ اسکے بعد ما بعد جدیدیت کے جنم کی وجوہات پر بات کی اور یہ کہا کہ 1968 کے فرانسیسی انقلاب کی ناکامی کے نتیجے میں فرانسیسی کمیونسٹوں (سٹالنسٹوں) میں پھیلنے والی مایوسی کی وجہ سے مارکسزم سے انحراف اور ما بعد جدیدیت جیسے انسان دشمن فلسفے کا آغاز ہوا (جو بنیادی طور پر نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالنا ہی تھا)۔ اسکے بعد جدلیاتی مادیت کے جنم پر بات کی اور موجودہ عہد میں اسکی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔